نواز شریف کٹھ پتلی وزیر اعظم بننے سے انکار کرنے والے ہیں؟
یہ نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی ہے کہ آج اس کا سب سے بڑا سیاسی مخالف جیل میں ہے جب کہ ان کی ’’تاج پوشی ‘‘ کے لئے اسٹیج سجایا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم ، استحکام پاکستان پارٹی، مسلم لیگ (ق) ، باپ ، جی ڈی اے اور جے یو آئی سے سیٹ ایڈجسٹ کرانے والوں کے پیش نظر نواز شریف کو عمران خان کی طرح ’’بے بس ‘‘ وزیر اعظم بنانا مقصود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے نواز شریف آئین میں دئیے گئے اختیارات کا حامل وزیراعظم بننا پسند کرتے ہیں یا تابع فرمان وزیراعظم بن کرمحض وزارت عظمیٰ کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں گے تاہم ماضی بتاتا ھے کہ نواز شریف ’’بے بس‘‘ وزیر اعظم بننا کبھی پسند نہیں کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی نواز رضا نے اپنے ایک کالم میں کیا ھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ نواز شریف کو مختلف حیلوں بہانوں سے دو بار نو ۔۔ دس سال تک جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے کی سزا دی گئی لیکن ان کو عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکا۔ آج چوتھی بار ان کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ممکن ہےنواز شریف اپنی سیاسی زندگی کی آخری اننگز کھیل رہے ہوں لہذا وہ مقتدرہ سے بنا کر رکھیں اور اگلے انتخاب میں پارٹی کی ’’کپتانی‘‘ اپنی ’’جارحانہ سیاسی سوچ‘‘ کی مالک اپنی صاحبزاد ی مریم نواز کے حوالے کردیں لیکن اس 40 سال کے سیاسی سفر میں پیچھے مڑ کر دیکھیں تو اس جماعت کے متعدد بانی سیاست دانوں نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑدیا ہے ۔ کم و بیش اتنی ہی تعداد میں اپنے دیرینہ ساتھیوں کو نواز شریف نے اپنی کشتی سے اتر جانے پر مجبور کر دیا ۔ 1992میں اسلام آباد کی اہم سیاسی شخصیت حاجی نوا ز کھو کھر کی رہائش گاہ پر صدر غلام اسحق خان کے تمام تر دبائو کو نظر انداز کرتے ہوئے راجہ محمد ظفر الحق، چوہدری نثار علی خان، حاجی نواز کھوکھر، صدیق کانجو، عبدالستار لالیکا، راجہ محمد افضل اور دیگر رہنمائوں نے مسلم لیگ (ن) کی بنیاد رکھی تھی آج اس کا ڈنکا بج رہا ہے لیکن اب پیچھے مڑ کر دیکھیں تو واحد لیڈر راجہ محمد ظفر الحق ہی نظر آرہے ہیں جو تاحال مسلم لیگ سے وابستہ ہیں۔
نواز رضا بتاتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کے بانی کچھ لیڈر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے ہیں جو زندہ رہ گئے ہیں ان میں ایک چوہدری نثار علی خان ہیں جن کو مسلم لیگ (ن) سے نکال دیا گیا یا خود انہوں نے اپنے لئے الگ راہ کا انتخاب کرلیا وہ اپنا دوسرا الیکشن آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑ رہے ہیں نواز شریف نے ان کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے اپنے دشمنوں کو بھی سینے سے لگالیا ہے۔ سردار مہتاب احمد خان، غوث علی شاہ ، الٰہی بخش سومر ، مخدوم جاوید ہاشمی اور شاہد خاقان عباسی سمیت متعدد قد آور شخصیات نواز شریف کے قافلے سے بہت پیچھے رہ گئی ہیں ۔راجہ محمد ظفر الحق جنہوں نے پرویز مشرف کے مارشلائی دور میں مسلم لیگ (ن) کا شیرازہ بکھرنے نہ دیا پہلے انہیں سینیٹ کی ٹکٹ نہ دی گئی پھر انہیں پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کا نمائشی رکن تک نہ بنایا گیا وہ نواز شریف کے پاس اپنے صاحبزادے راجہ محمد علی جو دوبار پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں کے ٹکٹ کے حصول کے لئے بھی گئے لیکن راجہ محمد علی کو نظر انداز کر دیا گیا کچھ ایسی ہی صورت حال چوہدری ریاض جو قومی و صوبائی اسمبلی کے رکن اور صوبائی وزیر رہ چکے ہیں کے ساتھ پیش آئی ہے وہ پارٹی سے کم و بیش چار عشروں سے زائد وابستہ رہے لیکن ان کو بھی قابل توجہ نہ سمجھا گیا ۔ واہ ، ٹیکسلا کی نشست پر عجیب و غریب صورت حال سامنے آئی ہے جہاں مسلم لیگ (ن) نے چوہدری نثار علی خان کے مخالف امیدوار کوسیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اپنی نشست دے دی۔ چوہدری تنویر خان جو راولپنڈی میں مسلم لیگ کے ’’رکھوالے‘‘ ہیں ان کے صاحبزادے اسامہ تنویر کوپارٹی ٹکٹ نہیں دیا گیا
نواز رضا کہتے ہیں کہ کئی جگہوں پر ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف مسلم لیگ نون میں بغاوت کی کیفیت ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی ، سردار مہتاب احمد خان ، عائشہ رجب علی اور دانیال عزیز نے اپنی پارٹی کے خلاف بغاوت کر دی ہے اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ناصر بٹ نے احتساب عدالت کے جج کو ایکسپوژ کر کے نواز شریف کی بے گناہی ثابت کی تھی ۔ وہ ٹکٹ نہ ملنے پر واپس لندن جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ تو دور ہو گئی ہے لیکن پنجاب میں قومی اسمبلی کے ہر حلقہ میں ان کی جماعت کو ’’بلے‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا ۔