پی ٹی آئی کا کل گورنر ہاؤس لاہور کے سامنے احتجاج کا اعلان

تحریک انصاف نے کل لاہور میں گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاج کا اعلان کرتے ہوئےکہا ہے کہ کسی غیرآئینی اقدام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

لاہورزمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتےہوئے حماد اظہر نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کو ماورائے آئین مذاق بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، پاکستان تحریک انصاف کے مینڈیٹ کی توہین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمارے اراکین صوبائی اسمبلی کو ٹیلی فون آرہے ہیں، اس طرح زرداری راج کے پیسے پنجاب کے معاملات کے اندر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام اس پر خاموش نہیں رہیں گے، اس پر عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ کل گورنر ہاؤس کے سامنے زبردست اجتماع کر رہے ہیں، کسی کو غیرآئینی اقدامات نہیں کرنے دیں گے اور عوام اپنے آپ کو دکھائیں گےکہ وہ کیا چاہتے ہیں، کل عمران خان 5 بجے خطاب کریں گے اور کل ایک ضروری دن ہوگا۔

حماد اظہر نے کہا کہ عوام سوموٹو ایکشن لیں گے اور کل 5 بجے ہم وہاں پہنچیں گے اور خاموش تماشائی نہیں بنیں گے، آئین نے گورنر اور وفاق سمیت ہر ادارے کے لیے آئین نے جو حدود مقرر کی ہیں، ان کو جو عبور کرے ان پر اب آرٹیکل 6 لگے گا۔

قبل ازیں فواد چوہدری نے کہا کہ منظور وٹو کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے فل کورٹ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گورنر جب وزیراعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کے لیے کہے گا تو کم از کم 10 دن کا وقت دے گا، یہ عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئے ہیں، اس پر کل سے کارروائی شروع ہو رہی ہے، تھوڑی دیر پہلے مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ختم ہوا ہے، تمام 10 اراکین نے چوہدری پرویز الہٰی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کرلیا ہے، 177 اس وقت پاکستان میں موجود ہیں جو شرکت کریں گے اور اس وقت چوہدری پرویز الہٰی، اسپیکر سبطین خان اور ڈپٹی اسپیکر واثق قیوم کو 187 اراکین کی حمایت حاصل ہے، یہ جو قراردادیں لے کر آئے ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس پورے نمبر نہیں ہیں، یہ بات تشویش ناک ہے کہ ہماری خواتین اراکین نے عمران خان سے ملاقات کی اور بتایا کہ انہیں پہلے پیسوں کی پیش کش کی گئی اور آصف زرداری کی پارٹی کی جانب سے ان سے رابطہ کیا گیا اور انہیں 5،5 کروڑ روپے کی پیش کش کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تشویش اس بات کی ہے کہ آج اراکین صوبائی اسمبلی نے عمران خان کو بتایا کہ انہیں ملتان اور لاہور میں فون کیے گئے ہیں آپ عدم اعتماد کے وقت غیرحاضر رہیں گے لیکن انہوں نے مسترد کردیا، ہمیں امید ہے کہ اس کا اعلیٰ ترین سطح پر نوٹس لیا جائے گا اور ان معاملات کو دیکھا جائے گا کون ایسی حرکتیں کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے، عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگی اور اس کے فوری طور پر پنجاب اسمبلی تحلیل کردی جائے گی اور خیبرپختونخوا اسمبلی کا مقدر بھی پنجاب اسمبلی کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اسی لیے وہ بھی تحلیل ہوجائے گی۔

ایک سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ کل اگر وفاقی حکومت کی طرف سے اقدامات ہوں گے تو پھر عوام نکلیں گے، سابق ڈپٹی اسپیکر مزاری اور رحیم یار خان سے رکن صوبائی اسمبلی مسعود پر پہلے ہی ریفرنس ہو رہا ہے اور اگر کل وہ نہیں آئے تو آئین کے آرٹیکل 63 اے تحت بھیج دیں گے لیکن ابھی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ دو روز قبل گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا تھا تاہم اسپیکر نے ان کے احکامات کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اجلاس جمعے تک ملتوی کردیا تھا،اسپیکر کی جانب سے اجلاس منعقد نہ کرنے پر آج گورنر کی سمری کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس منعقد نہیں ہوا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے بتایا کہ اگر اسمبلی کا اجلاس منعقد نہ ہوا تو پرویز الہٰی وزیراعلیٰ نہیں رہیں گے تو گورنر ان کو ڈی نوٹیفائی کردیں گے۔

گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ اپنے پارٹی کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور ان کی اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے اراکین کا اعتماد کھو بیٹھے ہیں،چند ہفتے قبل پنجاب کے حکمران اتحاد پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان اسمبلی کی تحلیل، ترقیاتی منصوبوں اور سرکاری عہدیداروں کے تبادلوں کے حوالے سے سنگین اختلافات سامنے آئے تھے، اختلافات کے حوالے سے حال ہی میں کابینہ کے ایک رکن کی جانب سے پرویزالہٰی کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد دیا جانے والا استعفیٰ ثبوت ہے۔

گورنر پنجاب نے کہا تھا کہ وزیراعلیٰ 4 دسمبر کو ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ مارچ 2023 تک صوبائی اسمبلی کہیں نہیں جارہی ہے جو پی ٹی آئی کے عوام کے سامنے موجود مؤقف کے بالکل برعکس ہے، پرویز الہٰی کو اسمبلی میں اعتماد حاصل نہیں ہے اور اسی لیے اسمبلی کا اجلاس تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے آئین کی شق 130(7) کے تحت 21 دسمبر کو شام 4 بجے طلب کرلیا گیا ہے۔

Back to top button