ہمایوں سعید نے فلم کا نام ’’لندن نہیں جائوں گا‘‘ کیوں رکھا؟

معروف اداکار ہمایوں سعید نے ’’پنجاب نہیں جائوں گی‘‘ کے بعد ’’لندن نہیں جائوں گا‘‘ کے ملتے جلتے نام سے فلم بنانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ایک روز میں نے مذاق میں کہا تھا کہ ’’لندن نہیں جائوں گا‘‘ کہا تھا، لیکن پھر انہیں اچانک خیال آیا کہ اس ہی نام سے فلم بنائی جائے۔
اداکار نے بتایا کہ ان کی فلموں ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘ اور ’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘ نے باکس آفس پر کامیابیاں حاصل کیں، اب عیدالاضحٰی پر ان کی فلم ’لندن نہیں جاؤں گا‘ نے پہلے ہی ہفتے میں 10 کروڑ روپے سے زیادہ کا بزنس کیا ہے، ہمایوں سعید نے کہا کہ ان کی نئی فلم ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ سے کافی مختلف ہے، ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کامیاب ہوئی تو اس زمانے میں وہ برطانیہ میں تھے، کچھ لوگوں نے وہاں ان سے کہا کہ وہ لندن میں فلم کیوں نہیں بناتے، اس وقت انہیں نے مذاق میں کہہ دیا کہ لندن نہیں جاؤں گا بنا لیتے ہیں۔
پاکستانی اداکار نے تسلیم کیا کہ اس فلم میں ان کے کردار کے بولنے کا انداز وہی ہے جو پنجاب نہیں جاؤں گی کے فواد کھگہ کا تھا، لہجہ جان بوجھ کر ایسا رکھا گیا کیونکہ یہ بنیادی طور پر ایک دیہاتی کردار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تفریح ویسے بھی محدود ہے، لوگ کھانا کھانے باہر جاتے ہیں یا پھر سینما جاتے ہیں، اس لئے ان کے دیکھنے کے لیے اچھی فلمیں تیار کی جانی چاہیں۔
ہمایوں سعید نے بتایا کہ فلم کا سب سے پسندیدہ مکالمہ یوں یے ’جہاں پہ تم کو رکھا تھا، وہاں پر ہارٹ ہوتا ہے، محبت سائنس ہوتی ہے، بچھڑنا آرٹ ہوتا ہے، فلم کی عکاسی کے دوران ہمایوں سعید کے مطابق انہیں سب سے زیادہ مشکل پنجابی گانا فلماتے ہوئے پیش آئی کیونکہ وہ بہت ٹھیٹ پنجابی ہے اور ساتھ میں ناچنا بھی ہوتا ہے، لہٰذا انہیں وہ کبھی گانے کے بول بھول جاتے، تو کبھی وہ اپنا سٹیپ بھول جاتے جس وجہ سے سب ان پر ہنس رہے تھے۔
بطور پروڈیوسر پاکستانی سینیما کی بحالی کے لیے اقدامات تجویز کرتے ہوئے۔ہمایوں سعید بولے کہ اس کے لیے حکومت کو انڈسٹری کی مدد کرنا ہوگی، حالیہ دنوں میں حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں جیسے ود ہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ اور ٹیکس ہالیڈے کا اعلان، اگر ان پر عمل ہوجاتا ہے تو بہت اچھا ہوگا، ہمایوں نے تجویز دی کہ ایک فلم سیکوئل بنانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے، جہاں باہر سے لوگوں کو بلا کر یہاں اپنوں کی تربیت کی جائے۔

Back to top button