جیو کی سکرین پر واپس آنے کی اب کوئی خواہش نہیں
سینئر صحافی حامد میر نے ٹی وی پروگرام پر پابندی لگنے کے بعد ایک انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ وہ دوبارہ جیو ٹی وی کی سکرین پر آنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ حامد میر نے مزید کہا کہ صحافیوں پر تشدد ناقابل قبول ہے، لیکن افسوس کی بات ہے جب صحافیوں پر تشدد ہو تو الٹا ان پر ہی الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
اسد علی طور سے قبل ابصار عالم اور مطیع اللہ جان پر بھی حملہ ہو چکا ہے۔میں ذاتی طور پر اسد علی طور کو اتنا نہیں جانتا،تاہم ان سے اظہارِ یکجہتی کےلیے مظاہرے میں شریک ہوا۔میں اس وقت میڈیا سے بات نہیں کرنا چاہ رہا تھا، لیکن وہاں پر یہ باتیں ہونے لگ گئیں کہ اسد علی طور کو’ لڑکی کے بھائیوں‘ نے مارا ہے۔جب مجھ پر حملہ ہوا تب بھی کچھ ایسی ہی باتیں کی گئیں کہ حامد میر کو پلاسٹک کی گولیاں ماری گئیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر میں بھی جذبات میں آ گیا اور مجھے لگا کہ اسد طور ویسی ہی صورت حال میں ہیں جس کا مجھے چند سال قبل سامنا کرنا پڑا۔میں نے جو بات کی اس میں کسی کا نام نہیں لیا لیکن پھر بھی غدار قرار دیا جا رہا ہے۔میں صرف صحافیوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف بات کرتارہا تھا لیکن اس مقصد پر بات نہیں کی جا رہی۔ حامد میر نے مزید کہا کہ میرے حالیہ بیان کا جیو ٹی وی سے کوئی تعلق نہیں،میں نے وہ بات پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم سے کی تو آپ مجھ سے کس بات کی وضاحت مانگ رہے ہیں،تاہم انہوں نے کہا کہ ہمارے اوپر پریشر ڈالا جا رہا ہے، ہمارا چینل پہلے بھی ایک بار بند ہو چکا ہے۔ میرے ادارے کے لوگوں کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی تاہم انہوں نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی، میرے اوپر پابندی لگانے کا پریشر کہیں اور سے تھا۔ میرا ادارہ مجھ پر کس حیثیت سے پابندی لگا سکتا ہے جب میں نے چینل کے توسط سے ایسا کوئی بیان دیا ہی نہیں۔ حامد میر نے مزید کہا کہ چینل کو تمام معاملے سے دور رہنے کےلیے کہا اور کہا کہ یہ معاملہ خود دیکھوں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہ صرف میرے پروگرام پر پابندی لگائی گئی بلکہ جنگ اخبار میں کالم بھی نہیں لکھنے دیا جا رہا ہے، کہا جا سکتا ہے کہ ٹی وی انتظامیہ نے مجھے فائر کر دیا ہے۔