آئینی ترمیم کا کھیل آخری اوورز میں داخل، حکومت کو کامیابی کا یقین

مجوزہ آئینی ترامیم کا کھیل آخری اوورز میں داخل ہونے کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے اتحافی حکومت اسلام آباد میں ہونے والی ایس سی او کانفرنس کے فوری بعد 18 سے 25 اکتوبر کے درمیان دو تہائی اکثریت سے ان ترامیم کو پاس کروانے میں کامیاب ہو جائے گی جن میں سب سے بڑی ترمیم ایک آئینی عدالت کا قیام ہے۔

آئینی عدالت کے قیام کا مقصد سپریم کورٹ کے وہ لامحدود اختیارات محدود کرنا ہے جنہیں استعمال کرتے ہوئے مخصوص ججز کی کبھی وزیراعظم فارغ کر دیتے ہیں تو کبھی پارلیمنٹ کو مفلوج بنا دیتے ہیں۔

اسی وجہ سے سپریم کورٹ ایک سیاسی ادارہ بن چکی ہے، چنانچہ آئینی ترامیم کے ذریعے سپریم کورٹ کو عوامی مفاد کے کیسز تک محدود کر دیا جائے گا اور تمام تر سیاسی تنازعات کے حل کی ذمہ داری 5 رکنی آئینی عدالت کو سونپ دی جائے گی۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ عینی ترامیم کے پیکج کو 25 اکتوبر سے پہلے پاس کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریٹائر ہونا ہے جس کے بعد سنیارٹی کی بنیاد پر عمراندار کہلانے والے جسٹس منصور علی شاہ نے اگلا چیف جسٹس بننا ہے۔

آئینی ترامیم کے بغیر 25 اکتوبر کے بعد ملکی صورتحال میں یقینی طور پر بڑی ہلچل پیدا ہوگی، حکومت کو موجودہ آئین اور قانون کے تحت آئندہ چند روز میں جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے فوری بعد یہ نوٹیفکیشن جاری ہو سکتا ہے مگر وہ اپنا عہدہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد یعنی 26 اکتوبر کو سنبھالیں گے، اگر حکومت اپنے پلان کے مطابق عدالتی نظام تبدیل کرنے میں ناکام رہی تو اس کےلیے 25 اکتوبر کے بعد آئینی ترامیم کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہو سکتا ہے۔

حکومتی حلقوں میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بنتے ہی حکومت کےلیے بڑے مسائل کھڑے کر دیں گے۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کے بعد الیکشن 2024 کے نتائج کو بھی کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے اور عمران خان کو بھی رہا کروایا جا سکتا ہے جس سے ملک دوبارہ ایک بڑے سیاسی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔

اسی لیے اتحادی حکومت آئینی ترمیم کو اپنی بقا کا مسئلہ قرار دے رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو کام اگست کے آخر اور ستمبر کے وسط میں دو مرتبہ نہیں ہو سکا کیا وہ اب مکمل ہو جائے گا؟

یاد رہے کہ ستمبر میں حکومت یہ دعویٰ کر رہی تھی کہ اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہو چکی ہے مگر 15 ستمبر کو بھرپور کوشش کے باوجود حکومت آئینی ترامیم پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی تھی۔

اس کے بعد سے اب تک تین ہفتوں میں جہاں سیاسی جماعتوں میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی وہیں آئین کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے نے آئینی ترامیم کےلیے حکومت کی راہ آسان کر دی ہے۔

یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے مئی 2022 میں جسٹس عمر عطا بندیال بینچ کا دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔ چنانچہ اب منحرف اراکین کا ووٹ شمار کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

لہذا اب اگر اپوزیشن بینچز سے کوئی رکن پارلیمنٹ حکومتی آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دے گا تو وہ فلور کراسنگ کا شکار ہو کر نااہل تو ہو جائے گا لیکن اس سے پہلے اس کا ووٹ شمار کرنے کیا جائے گا۔

تاہم اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود آئینی ترامیم منظور کروانا اتنا اسان نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال بتاتی ہے کہ صرف منحرف اراکین پر ہی انحصار کرتے ہعئے مولانا فضل الرحمن کی مدد کے بغیر ترامیم منظور کروانا رسکی عمل ہوگا جس میں ناکامی کا خدشہ بھی موجود ہے، اگرچہ آئینی عدالت کے معاملے پر مولانا بھی حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہیں مگر انہیں اب بھی کچھ ترامیم پر اختلاف ہے، نہ صرف مولانا فضل الرحمن بلکہ پیپلز پارٹی نے بھی اتفاقِ رائے نہ ہونے تک آئینی ترمیم میں جلد بازی نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے حکومت کے پاس کونسی 3 آپشنز ہیں؟

اگلے روز بلاول بھٹو زرداری نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس مجوزہ آئینی ترامیم پاس کروانے کےلیے ٹائم لائن کا مسئلہ نہیں ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ 25 اکتوبر تک آئینی ترامیم پاس کروا لی جائیں گی، بلاول بھٹو کے بقول ہماری کوشش ہے کہ مولانا سمیت تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا جائے۔

پیپلز پارٹی جے یو آئی (ف) کے ڈرافٹ کا انتظار کر رہی ہے، ان کا مجوزہ ڈرافٹ آئے گا تو بیٹھ کر دیکھیں گے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی کی گفتگو سے بھی واضح تھا کہ ابھی آئینی ترامیم کے معاملے پر سیاسی اتفاقِ رائے ابھی مکمل نہیں ہو سکا، بلاول نے انکشاف کیا کہ آئینی عدالتوں اور اصلاحات کے معاملے پر مولانا فضل الرحمن مان گئے تھے مگر حکومت آئین کے آرٹیکل آٹھ اور 51 میں ترامیم لانا چاہتی تھی، اس پر پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) نے انکار کر دیا تھا۔

یاد رہے آئین کا آرٹیکل آٹھ کہتا ہے کہ بنیادی حقوق کے خلاف قوانین کالعدم ہوں گے جبکہ آرٹیکل 51 قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد اور مخصوص نشستوں سے متعلق ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت اب بھی بہت سی ایسی ترامیم اس پیکیج کا حصہ بنانا چاہتی ہے جن پر مولانا فضل الرحمن‘ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کو بھی اعتراضات ہیں، اگر تو معاملہ صرف آئینی عدالت سمیت عدالتی اصلاحات کی حد تک رہا تو ترامیم کا معاملہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے فوری بعد منطقی انجام کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے، مگر جو ترامیم حکومت لانا چاہتی ہے اگر آئندہ چند روز میں ان پر اتفاقِ رائے پیدا نہ ہو سکا تو آئینی ترامیم کا معاملہ 25 اکتوبر کے بعد جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

Back to top button