پاکستان کا کسی بھی عالمی تنازعے کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ

پاکستان کی فوجی اور انٹیلی جنس قیادت نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو آگاہ کیا ہے کہ ملک کی آئندہ کی خارجہ پالیسی تشکیل دیتے وقت فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان مستقبل میں کسی بھی بین الاقوامی تنازعے میں حصہ نہیں بنے گا۔ بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا یہ حالیہ بیان کہ پاکستان امن میں امریکا کا ساتھ دے گا، جنگ میں نہیں، اسی نئی خارجہ پالیسی کا غماز ہے۔ امریکہ کو افغانستان سے اپنی فوجوں کے انخلا کے وقت بلوچستان میں فوجی اڈے دینے سے انکار بھی اسی پالیسی کے تحت کیا گیا۔
یاد رہے کہ یکم جولائی کو قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا ایک غیر معمولی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا جس میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے سبب بدلتی علاقائی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے سبب بدلتی ہوئی علاقائی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ عسکری قیادت نے آرمی چیف جنرل باجوہ کی سربراہی میں ملکی پارلیمانی رہنماؤں کو افغانستان کی صورت حال پر بریفنگ دی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی مشترکہ صدارت میں منعقدہ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اس غیر معمولی اجلاس میں علاقائی صورتِ حال پر تبادلہ تفصیلی خیال کیا گیا۔ اجلاس کے آغاز پر انٹر سروسز انٹلیجنس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے تناظر میں خطے کی مجموعی صورت حال پر بریفنگ دی۔ بریفنگ کے بعد پارلیمانی رہنماؤں کی جانب سے کئے جانے والے سوالات کے آرمی چیف نے جواب دیے۔ اس اجلاس کی زیادہ تر کاروائی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور اس کے سبب بدلتی ہوئی علاقائی صورت حال کے گرد رہی۔
پیپلز پارٹی نے قومی سلامتی کے اس اہم اجلاس میں وزیر اعظم کی عدم شرکت کا سوال اٹھایا تو حکومت کی جانب سے یہ موقف اپنایا گیا کہ ایوان کے ماحول کو بہتر رکھنے کی غرض سے عمران خان شریک نہیں ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہوا جب کپتان حکومتِ کو امریکی صدر بائیڈن کی جانب سے نظر انداز کیے جانے پر حزبِ اختلاف کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ صدر بائیڈن نے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد سے تا حال عمران خان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ اسی دوران عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان امریکہ کو فضائی اڈے فراہم نہیں کرے گا۔ تاہم یکم جولائی کو اسلام آباد میں پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کی پریس بریفنگ میں فوجی قیادت نے بتایا کہ نہ تو امریکہ نے پاکستان سے فوجی اڈے مانگے ہیں اور نہ ہی اسے اڈے دیے جا رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں فوج اور انٹیلیجنس قیادت نے پارلیمانی قیادت سے وسیع قومی سلامتی کے امور پر تقسیم کرنے والی سیاست سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ سٹریٹجک چیلنجز اور متعلقہ بیرونی تعلقات میں پالیسی کی تبدیلیوں کے ملک پر اثرات ہوسکتے ہیں۔ اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ حکومت نے دیگر ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کے سلسلے میں بڑے فیصلے کیے ہیں اور کسی بھی تنازع کا حصہ نہ بننے کا پالیسی فیصلہ کیا گیا ہے۔ شرکا کو بتایا گیا کہ بیرونی طاقتیں پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کرچکی ہیں، ملک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے 27 میں سے 26 نکات پر عملدرآمد کے باوجود نہ صرف گرے لسٹ میں رکھا گیا بلکہ منزل بھی تبدیل کردی گئی۔ اسلام آباد کو اب کہا گیا ہے کہ ایشیا پیسیفک گروہ کی جانب سے علیحدہ سے دیے گئے 6 نکاتی پلان پر اضافی عملدرآمد کیا جائے۔
اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ بیرونی طاقتوں نے پراکسیز کو بھی متحرک کردیا ہے جو لاہور میں ہوئے دھماکے اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے ظاہر ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عالمی مالیاتی فنڈ بھی آئندہ آنے والے دنوں میں پاکستان پر دباؤ بڑھا سکتا ہے اور پاک چین سی پیک کے منصوبوں کو بھی ہدف بنایا جا سکتا ہے، اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا کہ پاکستان سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ڈرا کو بھگانے کی کوششیں بھی ہوسکتی ہیں۔
بریفنگ کے بعد شیخ رشید نے مستقبل میں پاکستان میں دہشت گردی کے مذید واقعات ہونے کا خدشے ظاہر کیا اور کہا کہ ملک کو اندر سے نقصان پہنچانے کی کوششیں ہورہی ہیں اس لیے ایسے واقعات ہوں گے لیکن حکومت، اپوزیشن اور پاک فوج مل کر انہیں روکیں گے۔ وزیر داخلہ سے پوچھا گیا کہ کیا آرمی چیف نے وزیراعظم کے قومی اسمبلی سے حالیہ اجلاس میں کیے جانے والے خطاب سے اتفاق کیا؟ جس پر انہوں نے کہا کہ ‘بالکل وہ دونوں ایک پیج پر ہیں۔
شیخ نے کہا کہ فوج چاہتی ہے کہ ہمارے امریکا اور بالخصوص چین جس نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی، اس کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے ملک کو تنہا کردیا جائے، اب پالیسی بدل چکی ہے، ہم اپنے اڈے، ایئرپورٹس، بحریہ، فوجی اور کوئی بھی علاقہ کسی کو بھی نہیں دیں گے۔ اب پاکستان کسی بھی بین الاقوامی تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا۔