احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم،نوازشریف العزیزیہ ریفرنس سےبری

اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نوازشریف کی اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔چیف جسٹس عامر فاروق اور میاں گل حسن اورنگ زیب پر مشتمل2 رکنی بینچ نے نواز شریف کی العزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔ عدالت نے استفسار کیا نیب نے کن شواہد کی بنیاد پربار ثبوت ملزم پرمنتقل کرنے کا کہا ؟

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ احتساب عدالت نے حسین نواز کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی متفرق درخواست پر انحصار کیا جو یہ ثابت نہیں کرتی کہ نواز شریف ان اثاثوں کے مالک ہیں، اس درخواست کو ریکارڈ کا حصہ بھی نہیں بنایا، نواز شریف کی قومی اسمبلی میں تقریر اور کیپٹل ٹاک میں حسین نواز کے انٹرویو پر بھی انحصار کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن نے ثابت کرنا تھا کہ جب اثاثے بنائے گئے تو نواز شریف پبلک آفس ہولڈر تھے، آمدن اور اثاثوں کی قیمت بتانا تھی، ثابت کرنا تھا کہ جن کے نام اثاثے ہیں وہ اگر زیر کفالت ہیں تو بے نامی جائیداد کیسے بنائی گئی۔اگر اس سے متعلق کوئی ثبوت نہیں تو یہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس نہیں بنتا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس کیس میں العزیزیہ اور ہل میٹل کے الزامات ہیں، نیب نے بتانا ہے کہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز سے یہ رقم سعودی عرب بھجوائی گئی۔ پہلے بتائیں کہ العزیزیہ میں کتنے پیسے بھیجے گئے؟ کیسے بھیجے؟ فیکٹری کب لگی؟ وہ کون سے شواہد ہیں جن سے آپ ان کا تعلق کیس سے جوڑ رہے ہیں؟ جائیدادوں کی مالیت کا تعین کرنے سے متعلق کوئی دستاویز ، ریکارڈ پر کوئی ثبوت یا کوئی گواہ تو ہو گا؟

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہ کہا نواز شریف کے بیٹوں کے پاس اتنے ذرائع نہیں تھے کہ وہ مِلز لگا لیتے،جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا نے مختلف ڈاکیومنٹس کی بنیاد پر تجزیہ کیا کہ نواز شریف ہی اصل مالک ہیں، ہمارا کیس ہی واجد ضیا کے تجزیہ کی بنیاد پر ہے۔

پھر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اس ڈاکیومنٹ سے کچھ ثابت نہیں ہوتا، واجد ضیا نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ کن دستاویزات کی بنیاد پر کیا گیا؟ وہ ہمیں دکھا دیں۔مفروضے پر تو کبھی سزا نہیں ہوتی ہے، واجد ضیا تو خود مان رہا کہ ملکیت ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔

Back to top button