اسد طور کے حملہ آوروں کو زمین نگل گئی یا آسمان ؟

دو ماہ گزر جانے کے باوجود اسلام آباد میں سینئر صحافی اسد طور کے فلیٹ میں گھس کر انہیں تشدد کا نشانہ بنانے والوں کی گرفتاری میں مکمل ناکامی کے بعد عدالت نے اسلام آباد پولیس حکم جاری کیا ہے کہ مُلزمان کی نہ صرف شناخت کر کے جلد سے جلد اُنکی گرفتاری عمل میں لائی جائے، بلکہ سپیشل انویسٹیگشن ٹیم مُقدمہ کی تفتیش بابت تمام تر کارروائی اور ریکارڈ اسد طور کو فراہم کرے۔
یاس رہے کہ دو ماہ کی تفتیش کے بعد پولیس نے متعلقہ عدالت میں رپورٹ جمع کروائی ہے کی وہ اب تک لگ بھگ 33 لوگوں کو شاملِ تفتیش کر چُکی ہے، لیکن تاحال اسد طور سے کسی ایک بھی شخص کی نہ تو شناخت کروائی گئی ہے اور نہ ہی تفتیش کے متعلق پیش رفت سے آگاہ کیا گیا ہے۔ اسد طور کے قریبی ذرائع کے مطابق پولیس کی دو۔ماہ بعد بھی ملزمان تک پہنچنے میں ناکامی سے ثابت ہوتا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والوں کا تعلق ایک طاقتور ایجنسی سے ہی تھا۔
یاد رہے کہ اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اور یو ٹیوب ولاگر اسد علی طور کو 25 مئی کے روز ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا رہا۔ یہ واقعہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں پیش آیا جب تین نامعلوم افراد اسد علی طور کے فلیٹ میں زبردستی داخل ہوئے اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انھیں زد و کوب کیا۔ اسد علی طور نے پولیس کو اپنے بیان میں بتایا تھا کہ ان پر تشدد کر نے والے افراد پستول سے مسلح تھے اور انھوں نے انہیں پستول کے بٹ اور پائپ سے مارا پیٹا۔ اسد کا کہنا تھا کہ ان پر حملہ کرنے والے افراد نے انھیں ٹھوکریں ماریں اور ان سے زبردستی ‘پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے۔ فلیٹ کے سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسد طور پر حملے کرنے والے تینوں افراد چہرے پر ماسک پہنے ہوئے تھے اور انھیں زود و کرب کرنے کے بعد باآسانی فرار ہو گئے۔سی سی ٹی وی فوٹیج میں اسد علی طور کو زخمی حالت میں فلیٹ سے باہر نکلتے اور مدد کے لیے پکارتے دیکھا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ اسد طور پر تشدد کا یہ واقعہ قومی اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے بنائے جانے والے قانون کا مسودہ پیش ہونے کے اگلے ہی روز پیش آ گیا تھا۔ صحافی برادری کے علاوہ حکومتی نمائندوں کی جانب سے بھی اسد علی طور پر کیے جانے والے حملے کی شدید مذمت کی گئی تھی اور مریم نواز اور بلاول بھٹو سمیت تمام بڑے اپوزیشن رہنماؤں نے اسد کے گھر جاکر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا۔
اس حملے کا الزام آئی ایس آئی پر لگائے جانے کے بعد وفاقی وزارت اطلاعات نے کہا تھا کہ انٹر سروسز انٹیلیجنس نے صحافی اسد علی طور پر اسلام آباد میں ہونے والے حملے سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’سنیچر کو اعلیٰ ترین سطح پر وزارت اطلاعات اور پاکستان کی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے درمیان رابطہ ہوا جس میں آئی ایس آئی نے صحافی و ولاگر اسد علی طور پر اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ حملے اور مبینہ تشدد سے مکمل لاتعلقی ظاہر کی ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ایسے الزامات کا تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت آئی ایس آئی کو ففتھ جنریشن وار فیئر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مذید کہا گیا کہ آئی ایس آئی سمجھتی ہے کہ جب سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمان کی شکلیں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں تو پھر تفتیش آگے بڑھنی چاہیے اور ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ اور اس سلسلے میں آئی ایس آئی تفتیشی اداروں سے مکمل تعاون کرے گی۔
تاہم دو ماہ گزر جانے کے باوجود نہ تو اسد طور پر حملہ کرنے والوں کا پتہ چل سکا ہے اور نہ ہی سینئر صحافی ابصار عالم کو اسلام آباد میں گولی کا نشانہ بنانے والے خفیہ ہاتھ سامنے آپکے ہیں۔ چنانچہ اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ ان تمام واقعات میں ایسے طاقتور لوگ شامل ہیں جن کے گریبان تک پولیس کا ہاتھ نہیں پہنچ پاتا۔