کیا افغان طالبان واقعی ٹی ٹی پی کی سہولت کاری ختم کرنے والے ہیں؟

افغانستان سے امریکی انخلا اور افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاک افغان تعلقات میں جس بہتری کی امید کی جا رہی تھی وہ تو نہ آ سکی بلکہ 15 اگست 2021 کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشتگردی کے واقعات میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا جس میں زیادہ تر واقعات میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کے شواہد، پاکستان نہ صرف افغان عبوری حکومت بلکہ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر شیئر کرتا رہا تاہم افغان طالبان مسلسل تمام شواہد سے آنکھیں چراتے ہوئے ٹی ٹی پی کے شرپسندوں کو پٹہ ڈالنے سے انکاری رہے جس کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں کشیدگی بڑھتی دکھائی دی۔
جس کے بعد پاکستانی حکومت نے ستمبر 2024 میں تمام افغان غیر قانونی افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا تاہم یہ فیصلہ افغان عبوری حکومت کو پسند نہیں آیا۔ اِس پر اُنہوں نے اپنی ناراضی کا برملا اظہار بھی کیا۔ تاہم اس کے جواب میں پاکستانی حکام نے واضح اور دوٹوک اعلان کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی افغانوں کی ملک بدری کی تاریخ میں نہ تو کوئی توسیع ہو گی اور نہ ہی حکومت اپنے اس فیصلے سے واپس ہٹے گی۔ اس کے بعد دونوں ممالک میں حالات کشیدہ دکھائی دئیے یہاں تک کہ متعدد بار پاک افغان بارڈر بھی بند کیا گیا تاہم پاکستان کی جانب سے جارحانہ طرز عمل اپنانے کے بعد گزشتہ دنوں دونوں ممالک کے تعلقات میں اس وقت ایک ڈرامائی موڑ آیا جب اچانک پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ سطحی وفود نے دونوں ممالک کے دورے کئے اور اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کر کے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا جس کے بعد 19 اپریل کو نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اس سارے عرصے میں دونوں مُلکوں کے درمیان اعلٰی سطحی مذاکرات کا پہلا موقع تھا جس کو تمام سفارتی اور سکیورٹی ماہرین نے نہ صرف خوش آئند قرار دیا بلکہ دونوں ممالک کے باہمی معاملات کی درستی کے لیے اُٹھایا گیا اہم قدم قرار دیا۔
مبصرین کے مطابق 19 اپریل کو پاک افغان مذاکرات کے دوران زیادہ تر گفتگو دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے معاملات میں بہتری اور افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق رہی۔ تاہم پاکستان نے افغان حکومت سے ٹی ٹی پی کے شرپسندوں کو لگام ڈالنے کا پرزور مطالبہ کیا۔ پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرِخارجہ اسحاق ڈار نے افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیرخان متقی کے ساتھ اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں یہی بات کی کہ 2 سال سے زائد عرصے سے دونوں مُلکوں کے درمیان تجارتی معاملات پر بات چیت نہیں ہو سکی جس سے دونوں ممالک مواقع کھو رہے ہیں۔اسحاق ڈار کے دورے کی سب سے اہم بات دونوں مُلکوں کے درمیان ازبکستان، افغانستان پاکستان 647 کلومیٹر ریلوے ٹریک تعمیر کا اعلان تھا، ساتھ ہی ساتھ پاکستان افغانستان اور چین سہ فریقی فورم کو فعال کرنے کا اعلان بھی ہوا اور 30 جون تک پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ تجارتی معاہدے کی تجدید کی بات بھی کی گئی۔ جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک تجارتی روابط میں بہتری چاہتے ہیں۔ تاہم مبسرین کا ماننا ہے کہبدامنی، دہشتگردی اور انتشار کے ساتھ پاک افغان تعلقات کی مضبوطی نا ممکن ہے۔دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات میں بہتری کے باوجود پاک افغان تعلقات میں اس وقت تک استحکام نہیں آ سکتا جب تک افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے شرپسندوں کیخلاف ٹھوس اقدامات نہیں کئے جاتے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ
پاکستان کے سابق سینئر سفارتکار عبدالباسطکے مطابق پاک افغان مذاکرات کی شروعات حوصلہ افزا ہے۔ جس کے آنے والے دنوں میں بہتر نتائج برآمد ہونگے۔ مذاکرات سے پاکستان کو درپیش دہشتگردی کے خطرات کے خاتمے بارے سوال کے جواب میں سابق سفارتکار کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں افغان طالبان ٹی ٹی پی کو تو کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن اِسلامک سٹیٹ آف خُراسان بدستور ایک خطرہ رہے گا۔
دوسری جانب افغان اُمور کے بعض دیگر ماہرین کے مطابق پاک افغان تعلقات میں تلخی کا بڑا سبب دونوں مُلکوں کے تجارتی تعلقات ہیں۔ افغانستان میں کوئی صنعت نہیں اور تجارت ہی اُن کا ذریعہ معاش ہے جس کا زیادہ تر انحصار پاکستان پر ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے افغانستان نے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے سے اپنی تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کی لیکن ایک تو یہ کہ ایران کے ساتھ افغانستان کا صرف ایک بارڈر ملتا ہے جس سے افغانستان کے تجارتی سامان کو بندرگاہ تک پہنچنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کے طورخم، خرلاچی، غلام خان، انگور اڈہ اور چمن سمیت زیادہ گزرگاہیں ہیں۔ افغان تجارت کے لیے پاکستان موزوں ترین مُلک ہے۔اسی لئے جب پاکستان، افغانستان کے ساتھ اپنے بارڈرز کو بند کرتا ہے تو افغانستان میں تاجروں کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں میں غم و غصّہ میں شدت دکھائی دیتی ہے۔اس لئے اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ تجارت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر کر سکتی ہے۔تاہم ٹی ٹی پی کے شرپسندوں کو پٹہ ڈالنے سے ہی دونوں ممالک کے تعلقات میں مضبوطی اور استحکام ممکن ہے۔