کراچی کے طاقتور ڈمپر اور ٹینکر مافیا پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کراچی میں ٹینکر اور ڈمپر مافیا کے ہاتھوں خوفناک حد تک بڑھتے ہوئے حادثات کی بڑی وجہ گاڑیوں کے ان فٹ ہونے اور ان کے ڈرائیورز کی جانب سے منشیات کے استعمال کو قرار دیاہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ اِن سارے معاملات کا گہرا تعلق ایک انتہائی ناقص ٹرانسپورٹ سسٹم سے بھی ہے جسے حکومت نے بہتر بنانے کی بجائے مزید خراب کر دیا ہے۔ انکا کہنا یے کہ قوانین جتنے بھی بنا لیں، ان سے مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ ان پر عمل کرانے والے رشوت لیکر ٹینکرز اور ڈمپرز کو شہر کے اندر جانے دیتے ہیں۔
کراچی شہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی وجوہ بیان کرتے ہوئے مظہر عباس کہتے ہیں کہ کراچی ایک پورٹ سٹی ہے، ایک وقت تھا جب سامان پورٹ سے بذریعہ کارگو ٹرین شہر میں بھیجا جاتا تھا۔ وہ ریل ٹریک آج بھی پورٹ کے نزدیک ہی موجود ہے، اسکے باوجود ریلوے کارگو سروس نجانے کس کے کہنے پر بند کر دی گئی؟ اس سروس سے ریلوے کو بھی بے انتہا مالی فائدہ ہوا کرتا تھا۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ نہ تو کراچی کے پُل، نہ ہی کوئی فلائی اوور، نہ کوئی انڈر پاس اور نہ ہی سڑکیں ان بھاری کنٹینرز، ٹرالرز اور ڈمپرز کیلئے بنائی گئی تھیں۔ اسلئے یہاں سڑکیں بھی بار بار ٹوٹتی ہے اور حادثات بھی مسلسل ہوتے ہیں۔
مظہر عباس کا کہنا ہے کہ کراچی میں بڑھتے ہوئے حادثات کو کنٹرول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شہر میں ریلوے کارگو کا سسٹم دوبارہ سے بحال کیا جائے ورنہ یہ ہیوی ٹریفک دن میں چلے یا رات میں، یہ آئے روز نت نئے سانحات کو جنم دیتی رہے گی۔ جتنا پیسہ کراچی ماس ٹرانزٹ یا سرکلر ریلوے کی بحالی کی فائلوں میں کمایا گیا ہے اس سے آدھی قیمت میں یہ دونوں سسٹم اب تک پایہ تکمیل تک پہنچ گئے ہوتے۔ اب کراچی کے لیے نئی بسیں لائی جارہی ہیں جو اچھا اقدام ہے مگر یہ بسیں چلیں گی کن سڑکوں پر؟ کراچی کی 85 فیصد سڑکیں یا تو کھدی پڑی ہیں یا زیرِ تعمیر ہیں، ان سڑکوں کو بنتے بنتے کہیں ایک سال، کہیں دو برس اور کہیں تو چار سال ہو چکے ہیں، ان دنوں شہر سے دور سُپر ہائی وے پر ایک بڑے بلڈر کی جانب سے ایک ’سٹی‘ بنائی جارہی ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں سے وہاں آسانی سے پہنچنے کیلئے نئی سڑکیں تیار ہورہی ہیں، کاش ایسی ہی توجہ شہر کے اندر کی سڑکوں پر بھی دی جائے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ خراب سڑکیں حادثات کا باعث بنتی ہیں، کہیں مین ہول کُھلے ہوتے ہیں، کہیں واٹر بورڈ نے تو کہیں سوئی سدرن گیس والوں نے سڑک کھودی ہوتی ہے۔ ورنہ اِس شہر کی بیشتر سڑکیں آج بھی انتہائی کشادہ ہیں، جیسا کہ لیاقت آباد یا ناظم آباد دیکھ لیں، مگر جب ان سڑکوں پر تجاوزات کی بھر مار ہو گی اور سروس روڈ دکان داروں اور ہوٹل والوں کے حوالے کردی جائے گی تو پھر ٹریفک کا دباؤ آنا ہی ہے۔ سونے پر سہاگا یہاں کی تیز رفتار بسیں، منی بسیں، ٹینکرز اور ڈمپرز ہیں جن سے کبھی گاڑیاں ہٹ ہوتی ہیں اور کبھی موٹر سائیکل۔
مظہر عباس کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے وی آئی پی کلچر نے بھی پروٹوکول اور سیکورٹی کے نام پر کراچی شہر کے ٹریفک مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ یہاں ہر دوسر ا بڑا افسر VIP ہے، جس کیلئے ٹریف سگنل بند کردیا جاتا ہے۔ ایسے میں ٹریفک بعض اوقات 15 سے 20 منٹ تک بند رہنے سے ٹریفک کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور سگنل کھلنے پر آگے نکلنے کی دوڑ میں حادثات جنم لیتے ہیں۔ اب براہ کرم حکومت بتادے کس کیلئے ٹریفک سگنل بند کرنا ضروری اور کس کیلئے نہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں لگی فینسی لائٹس بھی حادثات کا باعث بنتی ہیں جن کو برسوں پہلے غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا، مگر یہ اب بھی مارکیٹ میں موجود ہیں اور گاڑیوں میں لگی ہوئی ہیں۔ کبھی کبھار کالے شیشوں اور فینسی لائٹس کے خلاف مہم بھی چلتی ہے اور پھر نامعلوم وجوہات کی بنا ختم کر دی جاتی ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ان سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ سیاست سے بالاتر ہوکر کراچی سرکلر ریلوے کو فوری طور پر بحال کیا جائے، وفاقی حکومت ریلوے سے کارگو سروس شروع کرے اور کنٹینرز اور ٹرالرز کے شہر میں داخلے پر پابندی لگا دی جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ کراچی کی سڑکیں تجاوزات سے پاک کی جائیں اور تمام سروس روڈز اپنی اصل حالت میں واپس لائی جائیں۔ شہر میں گرین لائن، ریڈلائن، بلولائن جیسے پراجیکٹس شروع کرنے سے پہلے سائیڈ روڈز کو بہتر بناکر متبادل راستے بنائے جائیں۔ شہر کی اکثر بسیں، منی بسیں، ڈمپرز، ٹرالرز اور واٹر ٹینکرز ان فٹ ہیں جنکے ڈرائیورز منشیات استعمال کرتے ہیں، اِس عمل کو روکا جائے۔