امریکی ڈالر نے پاکستانی روپے کے پرخچے کیوں اڑا دئیے؟


پنجاب کے ضمنی الیکشن میں حکمران نواز لیگ کی شکست کے باعث پیدا ہونے والی غیر یقینی سیاسی صورتحال کے بعد امریکی ڈالر نے پاکستانی روپے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور ڈالر کے مقابلے میں روپیہ ایک ہی دن میں دس روپے تک گر گیا جس کے بعد امریکی ڈالر کی قیمت 235 روپے کو ٹچ کر کے 222 روپے پر ٹھہری۔ 19 جولائی کے روز روپے کے مقابلے میں ایک ڈالر کی قیمت میں تقریباً دس روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں گذشتہ کئی مہینوں سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور ایک ڈالر کی قیمت انٹرا ڈے ٹریڈ میں 222 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جو ملکی تاریخ میں ڈالر کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔ 18 جولائی کو ایک ڈالر کی قیمت 215.19 روپے کی سطح پر بند ہوئی تھی جو ملکی تاریخ کی سب سے بلند سطح تھی تاہم 19 جولائی کو کاروبار کے آغاز کے ساتھ ہی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا جو بڑھتے بڑھتے 235 روپے کی سطح تک پہنچ گیا لیکن دن کے اختتام پر 222 روپے پر آ کر ٹھہرا۔

پاکستان میں 9 اپریل کو کپتان حکومت کی تبدیلی کے بعد ڈالر کی قیمت میں تھوڑی سی کمی دیکھی گئی تھی تاہم 11 اپریل کے بعد ڈالر کی قیمت میں دوبارہ اضافہ شروع ہوا جس میں اب تک مسلسل اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ پاکستان کے آئی ایم ایف سے قرضہ پروگرام بحالی کے معاہدے میں تاخیر نے مئی اور جون میں روپے کی قدر کو شدید متاثر کیا تھا۔ موجودہ حکومت کے ابتدائی چند ماہ میں ہی ایک ڈالر کی قیمت میں 44 روپے تک اضافہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے دعویٰ کیا کہ 19 جولائی کے روز ڈالر کی قیمت میں تقریباً 10 روپے ہونے والا اضافہ ملکی تاریخ میں کسی ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ 18 جولائی کو ریکارڈ کیا گیا تھا جو لگ بھگ چار روپے سے زیادہ تھا۔

یاد رہے کہ پاکستان میں 30 جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام پر ایک ڈالر کی قیمت 204.85 کی سطح پر بند ہوئی تھی۔

پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں گذشتہ کئی مہینوں سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ ملک کا بڑھتا ہوا درآمدی بل ہے جو عالمی مارکیٹ میں تیل، گیس اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بڑھا کیونکہ پاکستان توانائی اور خوردنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان شعبوں کی اشیا درآمد کرتا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرضہ پروگرام کی بحالی میں تاخیر نے بھی ڈالر کی قیمت میں اضافہ کیا کیونکہ پاکستان میں اس پروگرام کی بحالی نہ ہونے سے بین الاقوامی فنانسنگ رُکی ہوئی تھی۔

گذشتہ ہفتے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول معاہدہ طے پا جانے کے بعد ڈالر کی قیمت میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم گذشتہ چند روز سے ڈالر کی قیمت میں ایک بار اضافہ دیکھا گیا اور ڈالر 222 روپے کی سطح تک پہنچ گیا۔ فاریکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان نے کہا کہ اس وقت ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے کی سب سے بڑی وجہ ملک میں دو دن میں پیدا ہونے والی غیر یقینی سیاسی صورتحال ہے جو پنجاب میں ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد ابھری ہے۔ انھوں نے کہا ان نتائج کے بعد قیاس آرائیوں نے جنم لیا جن میں موجودہ سیٹ اپ کے مزید چلنے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ملک بوستان نے کہا کہ اس صورتحال کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام کے بحال ہونے کے بارے میں بھی سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں کہ اگر یہ سیٹ اپ نہیں چلتا تو پروگرام کی بحالی ہو پائے گی یا نہیں۔

انھوں نے کہا اس صورتحال نے روپے کے لیے منفی تاثر چھوڑا کیونکہ پاکستان کو اس سال 30 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ چاہیے اور یہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے مشروط ہے۔ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ کے خیال میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ شاید آئی ایم ایف کی کسی شرط کے تحت کیا جا رہا ہے جس میں پاکستانی کرنسی کو ڈی ویلیو کرنا ہے کیونکہ سیاسی صورتحال اور ڈالر کی رسد و طلب کا اتنا بڑا اثر نہیں آنا چاہیے تھا کہ دو دونوں میں ڈالر بارہ روپے تک بڑھ جائے۔

Back to top button