اندرونی خلفشار بلوچستان حکومت کے لیے بڑا خطرہ بن گیا

بلوچستان حکومت کی اتحادی جماعت جمہوری وطن پارٹی کے رکن گہرام بگٹی کی جانب سےصوبے میں بڑھتی ہوئی کرپشن اور وزیراعلیٰ پر نوکریوں کی فروخت کے الزامات کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے جام کمال حکومت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 25 اکتوبر کو کوئٹہ میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے کے بعد بلوچستان حکومت کے لیے بحران سنگین ہو سکتا ہے اور وہ گھر بھی جا سکتی ہے۔
بلوچستان کی دگرگوں سیاسی صورتحال کا اندازہ ایک ویڈیو سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے ایک مجمعے میں کھڑا ایک شخص جام کمالحکومت پر کرپشن کے الزامات لگارہا ہے۔ اسکے علاوہ وہ جام حکومت پر سرکاری ملازمتوں کو فروخت کرنے اور معذوروں کا کوٹہ نہ ملنے کا شکوہ بھی کر رہا ہے۔ اس شخص کے اردگرد بہت سارے لوگ جمع ہیں، جو اس کی بات بڑی دلچسپی سے سن رہے ہیں۔ اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر لوگ نہ صرف شیئر کررہے ہیں بلکہ مختلف تبصرے بھی جاری ہیں۔ ویڈیو میں بولنے والے شخص نوابزادہ گہرام بگٹی بلوچستان کے رکن صوبائی اسمبلی اور حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ ان کا تعلق جمہوری وطن پارٹی سے ہے اور انہوں نے عام انتخابات میں پی بی 10 سے بلوچستان عوامی پارٹی کے سرفراز بگٹی کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی۔
اپنے مجمعے سے خطاب میں گہرام بگٹی نے کہا کہ سرکاری نوکریوں میں معذور افراد کے لیے پانچ فیصد کا کوٹہ ہے، لیکن اس میں سے بھی انہیں کچھ نہیں ملا۔ معذور افراد کے لیے سیٹوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کوٹہ نہیں ملا کیونکہ یہاں صرف نوٹ چلا ہے، صرف نوٹ۔ اس حوالے سے بلوچستان کی صوبائی حکومت میں مبینہ کرپشن کے خلاف احتجاج کے طور پر گہرام بگٹی نوٹوں سے بھرا بیگ وزیر اعلیٰ ہاؤس لے گئے اور کہا صوبے میں جتنی بھی نوکریاں ہیں وہ مجھے پیسوں کے عوض بیچ دو کیونکہ جام کمال کی حکومت میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
ان سنگین الزامات کی ویڈیو کو بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے بھی ٹوئٹر پر شیئر کیا اور ساتھ میں لکھا کہ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ صوبائی اور مرکزی حکومت کے ایک اتحادی بول رہے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے سابقہ ادوار کے مقابلے میں کرپشن کا خاتمہ کردیا ہے۔ یاد رہے کہ کرپشن کے کئی کیسز سابقہ حکومت کے دور میں سامنے آئے، جب وزیر خزانہ اور سیکرٹری خزانہ پر میگا کرپشن کا کیس سامنے آیا اورسیکرٹری خزانہ کے گھر کی ٹینکی سے نوٹ برآمد کیے گئے۔تاہم موجودہ بلوچستان حکومت کے دور میں بھی ایک بڑا کرپشن کا کیس سامنے آیا، جس میں محکمہ صحت کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر سمیت تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کیس کے بارے میں نیب کی طرف سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ نیب بلوچستان نے ایم ایس ڈی بلوچستان میں کتے کے کاٹنے کے علاج کے انجیکشن کی خریداری کے حوالے سے شکایات پر تحقیقات کا آغاز کیا تو انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر ذوالفقار علی بلوچ نے میڈیکل ٹیکنیشن اور دیگر کی مدد سے تقریباً 40 کروڑ سے زائد کی خطیر رقم اینٹی ریبیز انجیکشن خریداری کی مد میں وصول کرکے اپنی جیبوں میں ڈال لی جبکہ خریداری صرف کاغذوں میں دکھائی گئی۔
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت پر ان کے اتحادی کی طرف سے کرپشن کے الزامات سنجیدہ صورت حال کی نشاندہی ہے کیونکہ کسی عام فرد نے نہیں بلکہ صوبائی اسمبلی کے ایک رکن نے یہ الزامات عائد کیے ہیں۔ گہرام بگٹی نے اس سے قبل بھی صوبائی حکومت پر کرپشن کا الزام لگایا تھا۔ وہ نوٹوں سے بھرا بیگ لے کر وزیراعلیٰ ہاؤس گئے کہ اگر حکومت نے آسامیاں فروخت ہی کرنی ہیں تو میں سب خرید لیتا ہوں۔حالیہ وائرل ویڈیو میں بھی وہ آسامیاں فروخت کرنے کا الزام عائد کررہے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ ان کے پہلے الزام پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی جو وہ اس بات کو بھرے مجمعے میں لوگوں کے سامنے دہرا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ کرپشن کا الزام لگنا الگ بات ہے، لیکن اگر یہ الزام کوئی معزز رکن اسمبلی لگا رہا ہے تو یہ انتہائی سنجیدہ صورت حال اور اس کا سخت نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ اگر اس معاملے پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں آتی تو اس سے بے روزگار نوجوانوں میں مایوسی پھیلے گی، جس کے منفی اثرات بلوچستان حکومت پر مرتب ہوسکتے ہیں۔بلوچستان میں حکومت کے خلاف کوئی مضبوط اپوزیشن موجود نہیں جو ایسے معاملات میں اس کے لیے کوئی چیلنج بن سکے۔ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی اپوزیشن ہوتی تو یہ معاملہ اسمبلی میں انتہائی موثر طریقے سے اٹھایا جاتا لیکن اس طرف سے خاموشی ہے۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا جلسہ 25 اکتوبر کو ہونے جارہا ہے جس کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ تجزیہ کاروں نے اس معاملے کو صوبائی حکومت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ معاملہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جلسے میں اٹھایا جاتا ہے تو یہ ایک مشکل صورت حال کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ پی ڈی ایم میں شامل میں دو جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف بلوچستان میں اپوزیشن میں ہیں۔
دوسری جانب ترجمان حکومت بلوچستان لیاقت شاہوانی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے رکن صوبائی اسمبلی گہرم بگٹی کے احتجاج کا نوٹس لے لیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو فوری طور پر اس بابت رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا پختہ عزم ہے کہ ملازمتوں میں تعیناتی میرٹ پر کی جائے گی اور ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ صوبے کی پائیدار ترقی کے لیے ترقیاتی منصوبوں کی بروقت اور معیاری تکمیل ضروری ہے۔