سپریم کورٹ میں جج ارشد ملک کے داغدار ماضی کی گونج


جسٹس فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے ججوں نے نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب کورٹ کے جج ارشد ملک کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتوں پر انجینئرنگ کے الزام لگ رہے ہیں اور اداروں کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اسلام آباد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کا ذکر کرتے ہوئے حکومتی وکیل فروغ نسیم سے کہا کہ آپ خوب جانتے ہیں کہ آپکی ناک کے نیچے ضلعی عدلیہ میں کیا ہوتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کا ماضی صاف نہیں تھا۔
یاد رہے کہ نواز شریف کو دباؤ کے تحت سزا دینے کے حوالے سے جج ارشد ملک کا اعترافی ویڈیو بیان لیک ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے اسے عدلیہ کے ماتھے پر ایک داغ قرار دے کر برطرف کر دیا تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے سے اس معاملے کی تفتیش کر کے کارروائی کرنے کو کہا تھا۔ تاہم حکومتی دباو کے باعث ابھی تک ایف آئی اے نے نہ تو کوئی انکوائری شروع کی یے اور نہ ہی ارشد ملک کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی کی ہے۔ ظاہر ہے جب سچ کی راہ پر چلنے والے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسی جیسے لوگ اپنے خلاف جھوٹے کیس بھگت رہے ہیں تو دیگر اداروں کے لوگ خود کو کسی مشکل میں کیوں ڈالیں گے؟
18 جون کو سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس کی کارروائی روکنے کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ارشد ملک والے کیس میں انجینئرنگ ہوئی اور مجھے افسوس ہے کہ عدلیہ کے ادارے کو استعمال کیا گیا۔ اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ پاکستان میں احتساب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب دیکھ رہے۔ انہوں نے کہا کہ جب جسٹس فائز عیسی کیس میں سپریم کورٹ کی تمام عدالتی کاروائی مکمل ہوگئی تو پھر وحید ڈوگر کو لاکر کھڑا کر دیا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اپنی تفصیلات آرام سے کسی ادارے سے حاصل نہیں کر سکتا تو پھر ایک جج کی تفصیلات وحید ڈوگر کے پاس کیسے آ گئیں؟ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ملک میں اس ملک میں احتساب کے نام پر تباہی ہو رہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔
خیال رہے کہ کپتان حکومت کا احتساب کا بیانیہ پچھلے دو سالوں میں پٹ چکا ہے چونکہ قومی احتساب بیورو کو صرف کپتان کے سیاسی مخالفین کو نشان عبرت بنانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن سچ تو یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی عدلیہ اور احتساب کے ادارے اسٹیبلشمنٹ کی پتلی بن کر ساکھ کے بحران کا شکار ہو گے تھے خاص طور پر جب سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا۔ بعد ازاں رہی سہی کسر تب پوری ہو گئی جب جج ارشد ملک کی اعترافی ویڈیو لیک ہوئی جسمیں اسنے شدید دباؤ کے تحت نواز شریف کو نااہل قرار دینے کا انکشاف کیا۔
یاد رہے کہ جج ارشد ملک کی ایک اور نازیبا ویڈیو مارکیٹ ہونے کے بعد ان کیخلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے سے وضاحت طلب کر رکھی ہے اور یہ پوچھا ہے کہ آن کیمرہ غیر اخلاقی حالت میں پائے گئے جج کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ یہ ریمارکس بھی دے چکے ہیں کہ 18 سال بعد ارشد ملک کو یاد آیا کہ انہیں نشہ آور ادویات دے کرغیر اخلاقی حالت میں ان کی ویڈیو بنائی گئی تھی۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد ملک نے مذکورہ ویڈیو کو نہ تو ترمیم شدہ کہا اور نہ ہی جعلی قرار دیا۔ اس کے بجائے انہوں نے ویڈیو کےاصلی ہونے کی تصدیق کی جسکے بعد ان کے خلاف ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی کارروائی ہونی چاہیئے تھی جوکہ ابھی تک نہیں ہوئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس قسم کا اعتراف بذات خود ماتحت اور اعلیٰ عدالتوں کے ججز کے لئے باعث شرمندگی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے تفتیشی افسر سے ملزم کے جرم کی وضاحت کرنے کی ہدایت کی۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم پر سال 2001 سے 2003 کے درمیان جج کو بلیک میل کرنے کے لیے ان کی نازیبا ویڈیو بنانے کا الزام ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے کے تفتیشی افسر سے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے جج ارشد ملک کا بیان ریکارڈ کیا تھا اور یہ بھی پوچھا کہ جس گھر میں ان کی ویڈیو بنائی گئی تھی وہ وہاں کیوں گئے تھے؟
واضح رہے کہ جج ارشد ملک کی مبینہ غیر اخلاقی ویڈیو اس وقت بنائی گئی تھی جب وہ ملتان میں بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ ارشد ملک کی غیر اخلاقی ویڈیو کا تنازع اس وقت سامنے آیا جب مریم نواز نے جولائی 2019 میں ایک پریس کانفرنس میں ارشد ملک کی ایک خفیہ ویڈیو جاری کی تھی جس میں انہوں نے ’اعتراف‘ کیا تھا کہ العزیزیہ ریفرنس کیس میں نواز شریف کو سزا اپنی ایک نازیبا ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کیے جانے پر سنائی۔ ارشد ملک نے اعتراف کیا تھا کہ وہ ویڈیو میں غیر اخلاقی حالت میں تھے تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ انہیں نشہ آور ادویات دے کر ٹریپ کیا گیا۔
ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے ناصر بٹ کو بتایا کہ ‘میاں نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔ جج ارشد ملک نے یہ بھی اعتراف کیا کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا بھی ثبوت نہیں تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button