جنرل باجوہ کا ‘پراجیکٹ عمران خان’ کیسے ناکام ہوا؟

معروف اینکر اور تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا ہے کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جنرل قمر باجوہ کے چھ سالہ دور اقتدار میں فوج اپنے حد سے زیادہ سیاسی کردار کی وجہ سے متنازعہ بن گئی۔ فوج نے پراجیکٹ عمران کو کامیاب بنانے کے لئے جو سیاسی بساط بچھائی، اس کی وجہ سے ملک اور خود فوج کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ لیکن عمران خان نے احسان فراموشی کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے اسی فوج کے خلاف سازش کی اور اس میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی، چنانچہ خان کو عاق کرنے اور پراجیکٹ عمران لپیٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ چھ برس تک پاکستان پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے کے بعد جنرل قمر باجوہ 29 نومبر کو آرمی چیف کے طاقتور ترین منصب سے ریٹائر ہو گئے۔ ان کی شخصیت اور ان کے دور کا ایک جائزہ لینا اس لئے ضروری ہے کہ قوم کو معلوم ہو کہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فوج کی کمانڈ کن حالات میں سنبھالنا پڑ رہی ہے اور پھر ان کے دور کے اختتام پر موجودہ حالات کے تناظر میں ہی ان کا محاسبہ ہو۔ سلیم صافی بقول، پالیسیوں کے لحاظ سے جنرل قمر باجوہ کا دور بحیثیت مجموعی خوبیوں اور خامیوں کا مرکب تھا۔ تاہم، ذاتی حوالوں سے ان کی خوبیوں کا پلڑا بھاری ہے۔ ان کی پہلی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک کھلے ڈھلے انسان ہیں اور آرمی چیف بننے کے بعد بھی ان کی یہ عادت برقرار رہی۔ بعض اوقات وہ بڑی بڑی مجالس میں دل کی بات اس طرح کہہ جاتے تھے کہ خود ان کے اور بعض اوقات ان کے ادارے کیلئے بھی مشکل کا باعث بنتی۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ ان میں غروروتکبر نہیں۔ آرمی چیف ہوکر بھی وہ ملتے وقت مخاطب کو عزت دیتے اور اکثر اوقات مجھ جسے معمولی حیثیت کے حامل لوگوں کو بھی گاڑی تک چھوڑنے آتے۔ ان کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اپنی یا فوج کی غلطیوں کا کھل کر اعتراف کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اپنی غلطی کھلے عام تسلیم کرنا غیرمعمولی لوگوں کی نشانی ہوتی ہے۔ ان کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ ذات کی بجائے وہ اپنے ادارے اور نیشنل سیکورٹی کے معاملے میں حساس ہیں۔ مثلا انہوں نے اپنی ذات اور عقیدے سے متعلق غلط پروپیگنڈا کرنے والوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا اور اپنے ساتھ دھوکہ کرنے والوں کو بھی معاف کئے رکھا لیکن جب ملک یا ادارے کا معاملہ آیا تو انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل تک کی سطح کے لوگوں کو سزائیں دلوائیں۔
سلیم صافی کہتے ہیں کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے باجوہ کی سوچ منفرد اور باکمال تھی۔ وہ انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے تھے۔ دوست ممالک اور امریکہ کے ساتھ بھی انہوں نے بہتر سفارت کاری کی۔ لیکن ان ذاتی خوبیوں کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے دور میں فوج سیاست میں حد سے زیادہ دخیل اور متنازعہ بن گئی۔ فوج نے عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کےلئے جو سیاسی بساط بچھائی، اس کی وجہ سے ملک اور خود فوج کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا جبکہ دیگر ریاستی ادارے مثلاً مقننہ، عدلیہ اور میڈیا بھی زبوں حالی کا شکار ہوئے لیکن آخر میں جب انہیں احساس ہوا کہ عمران ناقابلِ اصلاح ہیں اور یہ کہ فوج کی سیاست میں مداخلت کی وجہ سے ملک اور فوج کو غیر معمولی نقصان پہنچ رہا ہے تو انہوں نے نہ صرف اس عمل کو ترک کیا بلکہ اپنی غلطی کا برملا اعتراف بھی کیا۔ عمران خان پروجیکٹ کیلئے فوج نے سیاست میں جو مداخلت کی، میرے خیال میں اس غلطی کا بھی تنہا جنرل باجوہ کو ذمہ دار قرار دینا مناسب نہیں کیونکہ عمران اور پی ٹی آئی کی سپورٹ اور نون لیگ وغیرہ کی دشمنی کا پروجیکٹ انہیں ورثے میں ملا تھا۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے مقابلے میں پی ٹی آئی کو تیسری قوت کے طور پر کھڑا کرنے کے پروجیکٹ کا آغاز 2010 میں ہوا تھا۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں جنرل ظہیرالاسلام نے اس پروجیکٹ پر عمل کو تیز تر کردیا۔ پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف میمو گیٹ کا بے بنیاد سکینڈل بنایا گیا۔ اسی منصوبے کے تحت مسلم لیگ (ن) کے خلاف دھرنوں کے بعد ڈان لیکس کا ڈرامہ رچایا گیا۔ اوپر سے پانامہ سکینڈل آگیا جسے لیگی قیادت نے صحیح طریقے سے ڈیل نہیں کیا۔ یوں جب جنرل قمر باجوہ آرمی چیف بنے تو تین چیزیں انہیں وراثت میں ملیں۔ ایک ڈان لیکس، دوسرا پانامہ اور تیسرا عمران خان کو لاڈلا بنانا اور مسلم لیگ و پیپلز پارٹی کو دھڑن تختہ کرنا۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ یوں جب باجوہ نے فوج کی کمانڈ سنبھالی تو ان کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی فوج کی سوچ کو بدلیں اور دوسرا یہ کہ وہ اپنے ادارے کی ترجمانی کر کے مسلم لیگ(ن) کو ٹھکانے لگائیں۔ بدقسمتی سے مسلم لیگ (ن) نے بھی جنرل راحیل شریف اور جنرل ظہیرالاسلام کے دور کا حساب جنرل قمر باجوہ کے دور میں برابر کرنا چاہا جس کی وجہ سے باجوہ بھی اسے ٹھوکنے پر مجبور ہوئے ۔ پھر ان کی ٹیم میں فیض حمید اور آصف غفور جیسے لوگ شامل تھے جو عمران خان کی حمایت اور نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی مخالفت میں آخری حدوں تک چلے گئے۔ انہوں نے عمران کے حق میں عدلیہ، نیب، الیکشن کمیشن اور میڈیا کو اس بے دردی کے ساتھ استعمال کیا کہ اندھوں کو بھی سیاست میں فوج کی مداخلت نظر آنے لگی۔ دوسری طرف وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان تاریخ کے بدترین اور منتقم مزاج حکمران ثابت ہوئے جس کی وجہ سے فوج کو کھل کر خارجی، داخلی سیکورٹی اور حتیٰ کہ معاشی معاملات بھی ہاتھ میں لینا پڑے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران کے دور میں اگر پاکستان تھوڑا بہت سفارتی اور معاشی حوالوں سے بچا تو وہ جنرل باجوہ کی کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔ دوسری طرف اس اعلانیہ مداخلت کی وجہ سے فوج سے پی ٹی آئی کے سوا باقی جماعتیں ناراض ہوئیں اوراس کی ناقد بنی رہیں۔ جنرل باجوہ کوشش کرتے رہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ معاملات درست کریں لیکن عمران کی یہ شعوری کوشش کامیاب رہی کہ وہ جب تک اقتدار میں رہے، دونوں کو لڑائے رکھا۔ چنانچہ اس روش سے تنگ آ کر فروری 2022 میں فوج نے نیوٹرل ہو جانے کا فیصلہ کر لیا ،جس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ غیرآئینی بیساکھیوں سے قائم عمران حکومت دھڑام سے گر گئی۔
بقول سلیم صافی فوج کا خیال تھا کہ عمران ماضی کے احسانات کو مدنظر رکھیں گے لیکن انہوں نے احسان فراموشی کی حد کردی اور فوج یا پھر خود باجوہ صاحب کے خلاف الزام تراشی میں بھی ہر حد پار کردی۔ اور تو اور، سیاسی تاریخ میں پہلی بار عمران نے فوج میں پھوٹ ڈالنے کی بھی کوشش کی۔ یوں اب فوج کی کم وبیش وہ کیفیت ہے کہ ”نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم“۔ بلکہ صنم تو بہت ستمگر بن گئے ہیں۔ جنرل عاصم منیر نے ان گھمبیر حالات میں فوج کی کمان سنبھالی ہے لہذا ان کے لیے بھی چیلنجز کم نہیں ہیں۔ لیکن میرے نزدیک سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرکے فوج کو سب سیاسی جماعتوں اور سب طبقات کیلئے یکساں قابل احترام فوج کیسے بناتے ہیں؟