جنرل صاحب! کچھ کریں، میں الیکشن ہار گیا ہوں


جنرل صاحب! میری مدد کریں، میں الیکشن ہار رہا ہوں۔ یہ وہ قیمتی الفاظ تھے جو وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران اپنے مخالف خواجہ آصف کے لیے رونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے استعمال کیے تھے۔ عمران نے دعویٰ کیا تھا کہ جب 2018 کے الیکشن میں خواجہ محمد آصف کو الیکشن کی رات اپنے ہارنے کی خبریں ملنا شروع ہوئیں تو انہوں نے مدد کے لیے جنرل باجوہ کو فون کرکے کہا کہ جنرل صاحب کچھ کریں میں الیکشن ہار رہا ہوں۔ تاہم در حقیقت خواجہ آصف وہ الیکشن جیت گئے تھے اور انہوں نے عمران کے دست راست عثمان ڈار کو سیالکوٹ سے شکست دے دی تھی۔ اب سوشل میڈیا صارفین عمران خان کی اس تقریر کے اس مخصوص ٹوٹے کو انہی کے خلاف استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر وائرل کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے کی وجہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست ہے۔
تحریک انصاف حکومت کے ناقدین یاد دلواتے ہیں کہ ماضی میں عمران خان، ان کے ترجمانوں کی فوج، انکی کابینہ کے وزراء اور حکمران جماعت کے سوشل میڈیا ٹرولرز بطورِ طنز عمران خان کا یہ جملہ اپوزیشن جماعتوں کے خلاف استعمال کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے نہیں تھکتے تھے، لیکن اب صورتحال الٹ ہو چکی ہے اور جیسے ہی تحریک انصاف کا کوئی امیدوار کوئی ضمنی الیکشن ہارتا ہے تو عمران خان کا یہی فقرہ حکومت کے منہ پر مار دیا جاتا ہے۔ یہی مناظر اب حکمران جماعت کے مضبوط گڑھ خیبر پختونخوا میں دیکھنے کو ملے جہاں الیکشن 2018 میں پی ٹی آئی نے دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔
عمران خان کے لئے صدمے اور سبکی کی بات یہ ہے کہ کے پی کے میں تحریک انصاف کا کوئی بھی امیدوار کسی بڑے شہر میں مئیر کی سیٹ نہیں جیت پایا اور زیادہ تر شہروں میں اسکے امیدوار جمعیت علماء اسلام کے امیدواروں کے ہاتھوں پچھواڑے گے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے مولانا فضل الرحمن مسلسل یہ دعوی کرتے چلے آئے ہیں کہ 2018 کے الیکشن میں ان کو اور انکی جماعت کے اکثریتی امیدواروں کو اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی کے ذریعے ہرایا تھا۔ الیکشن کے بعد وزیراعظم عمران خان بارہا مولانا فضل الرحمن کو بیہودہ تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں اور وزارت عظمیٰ کے منصب سے گرتے ہوئے انہیں مولانا ڈیزل جیسے خطابات سے نوازتے رہے ہیں۔ تاہم اب مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے ہاتھوں تحریک انصاف کی شکست کے بعد عمران خان سمیت ان کے ساتھیوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی۔ جس جماعت کو وہ حلوے والی اور  شر پسندوں کی جماعت کہتے رہے، اس نے پی ٹی آئی کی ہوم گراونڈ پشاور میں گھس کر سلیکٹڈ کی پٹائی اور ٹھکائی کر دی ہے، یاد رہے کہ جمعیت علماء اسلام نے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو کے پی کے میں آٹھ بڑے اضلاع میں دھول چٹائی یے۔ یہ وہی جماعت ہے جس نے گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان، وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز، وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وفاقی وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان، وفاقی وزیر عمر ایوب کے اپنے ذاتی حلقوں میں ان کے امیدواروں کو شکست دی ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن میں اپنی جیت یقینی بنانے کے لئے مولانا سمیع الحق کی جماعت سے اتحاد کیا تھا۔ اسکے علاوہ حکومتی جماعت نے جماعت الدعوہ، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک سے بھی اتحاد کیا تھا لیکن نتیجہ پھر بھی شکست کی صورت میں برآمد ہوا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ آخر ان کی جماعت کو اہنی ہوم گراؤنڈ پر اتنی ذلت آمیز شکست سے کیوں دوچار ہونا پڑا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ وہی صوبہ ہے جہاں بی آر ٹی بسیں فراہم کی گئیں اور عوام کو صحت انصاف کارڈز جاری کئے گے، لہذا سوال یہ ہے کہ آخر اس صوبے کی عوام نے پی ٹی آئی سے وفاداری کیوں نہ نبھائی؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا بلدیاتی الیکشن کے نتائج نے ایک بات واضح کر دی ہے کہ 2023 کے الیکشن میں حکومتی جماعت کا ملک بھر میں دھڑن تختہ ہونے جا رہا یے جس کی بنیادی وجہ پچھلے تین برسوں میں کپتان حکومت کی سیاسی اور معاشی سمیت ہر محاذ پر بدترین نا اہلی اور ناکامی ہے۔

Back to top button