جنوبی پنجاب صوبہ نہ بنانے پر کپتان کے لئے نئی مشکل تیار

اقتدار میں آنے کے باوجود جنوبی پنجاب کو ایک علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ پورا نہ ہونے کے بعد تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کی بڑی تعداد نے پارٹی قیادت کو علیحدہ ہونے کی دھمکی دے دی ہے جس سے وزیراعظم عمران خان کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ممبران پنجاب اور قومی اسمبلی نے یہ معاملہ اس وقت اٹھایا ہے جب جنوبی پنجاب دھڑے کے سرکردہ رہنما جہانگیر ترین اوروزیراعظم عمران خان کے مابین اختلافات کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ ناراض اراکین اسمبلی کا موقف ہے کہ انہوں نے جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر لوگوں سے ووٹ لیے تھے لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود اس وعدے پر عملدرآمد کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کی گئی حالانکہ اس حوالے سے پنجاب اسمبلی سے قراردادیں بھی منظور کی جا چکی ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا نعرہ لگا کر جنوبی پنجاب کے 11اضلاع سے بھرپور کامیابی حاصل کی تھی۔ مگر وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کے ڈیڑھ سال بعد بھی پنجاب حکومت کی جانب سے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ یا نیا انتظامی یونٹ بنانے کے معاملے پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی جس کے باعث جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین اور سرکردہ سیاسی خاندانوں کے افراد ناراض ہو گئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ ناراض اراکین نے عمران خان پر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کیلئے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے اور یہ دھمکی بھی دے دی ہے کہ اگر ان کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا نہ کیا گیا تو وہ پارٹی کے اندر اس مقصد کے لیے فارورڈ بلاک بھی بنا سکتے ہیں۔ ان اراکین کا موقف ہے کہ عثمان بزدار کو جنوبی پنجاب کے کھاتے میں وزیر اعلی بنا دینے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا چونکہ ان کے مسائل جوں کے توں کھڑے ہیں اور وہ اسی صورت حل ہوں گے جب جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبے کی حیثیت دے دی جائے گی۔
ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ پی ٹی آئی کے ناراض اراکین اسمبلی نے پیپلز پارٹی اور نون لیگ سے تعلق رکھنے والے قائدین سے بھی جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کے حوالے سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں۔ ایسی ہی ایک ملاقات گزشتہ دنوں سابق گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ کی رہائش گاہ پر ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن) کےمخدوم جاوید ہاشمی، چودھری جعفر اقبال، بیگم عشرت اشرف، سردار اویس خان لغاری، پاکستان تحریک انصاف کے مخدوم شاہ محمود قریشی، ملک عامر ڈوگر، سردار نصراللہ دریشک، پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی، سید ناظم حسین شاہ وغیرہ شامل ہوئے جس میں اتفاق کیا گیا کہ جنوبی پنجاب کے معاملے کوپ منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا جائے اور اس کی مخالفت کرنے والے وزاراء اور ارکان اسمبلی کا گھیراؤ کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا معاملہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں اٹھایا گیا اور پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب اور صوبہ بہاولپور کی بحالی کی قراردادیں منظور کی گئیں۔ سابق گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ نے جنوبی پنجاب کے اضلاع پر مشتمل الگ صوبہ بنانے کے لئے سفارشات تیار کرکے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور پارٹی قیادت کو پیش کیں اور مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے فیصلہ کیا کہ جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ بحالی کے تنازع پر اگر نئے صوبے کی تشکیل ممکن نہ ہو توجنوبی پنجاب کے لوگوں میں احساس محرومی کے فوری خاتمہ کے لئے بہاولپور، ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے تین ڈویژنوں کے اضلاع پر مشتمل جنوبی پنجاب کے لئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ایک منی سول سیکرٹریٹ قائم کردیا جائے ،جس میں آبپاشی، بلدیات، مواصلات، تعمیرات، تعلیم، صحت جیسے اہم محکموں کے سپیشل سیکرٹریوں کے نئے عہدے قائم کر دیئے جائیں تاکہ جنوبی پنجاب کے لاکھوں افراد کو بنیادی سہولتوں کی فوری فراہمی اور دوسرے مسائل کا حل مقامی سطح پر ممکن ہوسکے۔ گورنر رفیق رجوانہ کی سفارشات پر بڑی تیزی سے عمل جاری تھا کہ انتخابات 2018 سے چند ماہ قبل بیوروکریسی کی مخالفت پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے جنوبی پنجاب میں منی سول سیکرٹریٹ قائم کرنے کے معاملہ پر اچانک خاموشی اختیار کرلی جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا انتخابی نعرہ لگا کر عام انتخابات میں جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کی اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار بری طرح انتخابات ہار گئے۔ اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو برسراقتدار آئے ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن جنوبی پنجاب صوبہ یا منی سول سیکرٹریٹ قائم کرنے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی جس کے باعث تحریک انصاف کے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین کی اکثریت پارٹی قیادت سے نالاں نظرآتی ہے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے لغاری، مزاری، دریشک، ترین، قریشی، گیلانی، ڈوگر، شیخ، رجوانہ، گورچانی، جتوئی ، دستی، گوپانگ، رئیس، مخدوم، سواگ، سید، ہراج، جھکڑ، اولکھ، کانجو، بوسن، نون، قیصرانی سیاسی خاندانوں کے سرکردہ افرادنے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنوانے کے لئے سرجوڑ لئے ہیں ۔اگرحکومت نے جنوبی پنجاب کا نیا انتظامی یونٹ بنانے میں تاخیر کی تو آئندہ الیکشن میں جنوبی پنجاب صوبے کی مخالفت کرنے والوں کو خمیازہ بھگتنا ہوگا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button