حریت فکر کی جنگ میں جسم و جان سے گزر جانے والا وارث میر
تحریر:اعتزاز احسن
پاکستان میں قلم اور حرف کی حرمت کے لیے قربانی دینے والے دبنگ لکھاریوں میں پروفیسر وارث میر کا نام سر فہرست یے۔ ان کا شمار ایسے مردان حر میں کیا جاسکتا ہے جو فوجی آمروں کے خلاف بے جگری سے جمہوریت کی جنگ لڑتے ہوئے مارے گے۔ وارث میر نے چونکہ ایوب دور میں اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا تھا اس لیے ان کی اس دور کی تحریروں میں بھی ضیاء دور کی تحریروں کی جھلک نظر آتی ہے۔ دونوں ادوار میں انہوں نے مارشل لاء جنتا کی مخالفت کی اور صحافت پر عائد ہونے پابندیوں کے خلاف اپنے قلم سے مزاحمت کی۔
پاکستان میں ایک بااصول صاحب ضمیر اور نڈر صحافی کے لیے زندگی بسر کرنا کس قدر مشکل کام ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے پروفیسر وارث میر کی صحافتی زندگی پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
وارث میر ایک سچے اور دیانتدار صحافی ہونے کے علاوہ ایک معلم
اور محقق بھی تھے۔ وہ ایک منکسر المزاج، بامروت اور بااخلاق انسان تھے۔ دوستوں کے دوست اور گھر والوں کے لیے ذمہ دار شوہر اور شفیق باپ بھی تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ کوئی دھمکی یا لالچ انہیں اپنے نظریات کے اظہار سے نہیں روک پایا۔ وہ صحیح معنوں میں ایک روشن خیال ترقی پسند دانشور تھے لیکن پیشہ ور ترقی پسند انہیں ملائیت کا طعنہ دیتے تھے اور ملا انہیں ترقی پسند کہہ کر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ سوشلزم کے بارے میں ان کا مطالعہ جغادری ترقی پسندوں سے کہیں زیادہ تھا۔ لیکن وہ ایک حقیقت پسند انسان تھے۔ وہ کٹر مسلمان تھے لیکن عقل و دانش کے استعمال کی بناء پر اجتہاد کے قائل تھے۔ وارث میر سوشلزم کے قائل تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ اگر اس میں سے الحاد کو خارج کر دیا جائے تو یہ اسلام کے بہت قریب ہے۔ ان کا مطالعہ نہایت وسیع اور گہرا تھا اور پھر وہ اس مطالعے کو عقل و دانش اور اپنے علم کی روشنی میں رکھ کر اس کا تجزیہ کرنے کے عادی تھے۔ وارث میر قدامت پسند مولویوں اور انتہا پسند کمیونسٹوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دونوں کے نزدیک سزا وار اور لائق گردن زنی تھے۔ ان کا معاملہ کچھ ایسا تھا کہ:
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں یہی وجہ ہے کہ وہ ساری زندگی متنازعہ رہے لیکن اپنے خیالات و نظریات کا اظہار کرنے سے کبھی باز نہیں آئے۔ جنرل ضیاء الحق کے طویل مارشل لا دور میں جب بڑے بڑے سورما خوشامدی صحافت کر رہے تھے تو وارث میر نے ڈنکے کی چوٹ پر ضیا اور اسکے آمرانہ طرز حکومت پر نکتہ چینی کی۔ اس دور میں انہوں نے اس قدر بے رحمی اور بے جگری سے لکھا کہ بعض اوقات پڑھنے والے ڈر جاتے تھے کہ جانے اس شخص کا کیا انجام ہو گا۔ لیکن پروفیسر وارث میر کی لغت میں ڈر اور مصلحت نام کا کوئی لفظ موجود نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ اس مزاج اور تیور کے انسان کو پریشانیوں اور ذہنی دبائو کے سوا کیا حاصل ہو سکتا ہے۔
وارث میر کے حوالے سے ایک مشکل یہ تھی کہ وسیع مطالعے کے باعث کوئی بحث میں انہیں قائل نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن ان میں یہ خوبی تھی کہ دوسروں کے تجزیے کو درست سمجھتے تو اس کا بلا جھجک اظہار کر دیتے تھے۔ انہوں نے ایک بار اپنے نو عمر بچے کو ٹارزن کی کتاب پڑھتے پایا تو مشورہ دیا کہ اگر وہ ایک بہادر انسان کی زندگی جینا چاہتا ہے تو ٹیپو سلطان کے بارے میں پڑھے جس کے بقول گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔بدقسمتی سے وارث میر نے جس ملک، ماحول اور معاشرے میں جنم لیا تھا، وہ ان جیسے انسانوں کو برداشت کرنے سے قاصر تھا ورنہ انہوں نے تحریر و تقریر اور تحقیق و تجزیہ نگاری، کالم نگاری اور صحافت کے میدان میں جو کارنامے سرانجام دیئے، زندہ اور باشعور معاشرے میں انہیں بہت بلند مقام دیا جاتا ہے۔ وہ اپنے فہم و شعور کے مطابق ہر غلط بات کی مخالفت میں بے دریغ صدا بلند کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور یہی عادت انہیں لے ڈوبی، یا پھر اسی کی بدولت وہ پاکستانی صحافتی تاریخ کا ایک منفرد اور ناقابل فراموش کردار بن گئے۔ ذاتی زندگی میں وہ خوش مزاج، خوش اخلاق اور ہنس مکھ تھے۔ لاکھ اختلافات کے باوجود ان کی پیشانی پر بل اور رکھ رکھائو میں فرق نہیں پیدا ہوتا تھا۔
وارث میر کے بارے میں لکھنا آسان کام نہیں ہے۔ ان کی زندگی اور کردار کے ہر پہلو پر بیشمار صفحات لکھے جاسکتے ہیں۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ ہر غلط کام کی مخالفت کرنے کے باوجود وہ جب تک جیے خوش و خرم زندگی بسر کی۔ ان کے ظاہری برتائو میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بے رحمانہ تحریروں اور تقریروں کے باوجود وہ ایک پسندیدہ اور دلکش شخصیت سمجھے جاتے اور ہر محفل میں ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے تھے۔ وارث میر کی شخصیت پرکشش تھی جو ان سے ایک بار ملتا اسے دوسری بار ملنے کی خواہش ہوتی تھی۔ ان میں سادگی اور ملنساری بھی تھی میری پختہ رائے ہے کہ ’’وہ محبت کرنے والے شخص تھے، وہ ایسے شخص تھے جن سے کسی کو کبھی نقصان نہیں پہنچا، وہ کسی کے بارے میں برا سوچنا بھی ’’برا‘‘ سمجھتے تھے۔ لیکن اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے پروفیسر وارث میر کے خلاف محاذ بنا رکھا تھا، جن کی کوشش ہوتی کہ پروفیسر صاحب کو ’’ذہنی تشدد‘‘ کا نشانہ بنایا جائے۔ انہیں علم تھا کہ پروفیسر بڑی حساس طبیعت کے مالک تھے، کسی کو تکلیف میں دیکھتے تو مغموم ہو جاتے تھے۔ میں نے کئی مرتبہ انہیں دوسروں کے دکھ میں آنسو بہاتے دیکھا۔ وارث میر کے نظریاتی مخالفین ان کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ ایک مقامی ہوٹل میں ایک ایسی ہی تقریب میں وارث میر کے مخالف مقرر ضیا جنتا کے حواری بھی موجود تھے، ان میں سے ایک نے اپنی تقریر میں پروفیسر صاحب پر چند جملے کسے تو وہ غصہ میں آگئے اور اپنی جوابی تقریر میں انہیں ’’صحافتی جگے‘‘ کہہ کر مخاطب کیا اور کہا کہ ’’میں اس جگے پن کا بھر پور مقابلہ کروں گا‘‘۔
مجھے یاد ہے کہ اس تقریب کے بعد پروفیسر وارث میر خاصے اداس تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ جب میں کوئی گروپ بندی نہیں کرتا، کسی کے خلاف نہیں ہوں تو یہ لوگ کیوں میرے خلاف سازش کرتے ہیں، میں نے ان کا کیا بگاڑا ہے۔ لیکن ایک بات پکی اور سچی تھی کہ زندگی کے سفر میں سب کچھ وارث میر نے اپنی اہلیت و صلاحیت سے حاصل کیا تھا۔ انہیں بلا شبہ ایک ’’سیلف میڈ‘‘ انسان قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کا تعلق علم و ادب کے گھرانے سے تھا۔ ان کے والد محترم اردو کے اچھے شاعروں میں شمار ہوتے تھے اور ’’قلم‘‘ انہیں ورثہ میں ملا تھا۔ وارث میر کی تحریر میں روانی اور دلیل ہوتی تھی جو پڑھنے والے کو نہ صرف متاثر بلکہ قائل بھی کرتی تھی۔ اب ایسے لوگ کہاں، یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ’’بڑے لوگ دنیا سے رخصت ہوئے تو چھوٹے بڑے بن گئے‘‘ لیکن وارث میر کے پائے کے بڑے نہ بن سکے۔
وارث میر اپنے نظریات اور آدرشوں کی خاطرعمر بھر مختلف دبائو برداشت کرتے رہے۔ اگر ان کا بس چلتا تو ہمیشہ کرتے رہتے لیکن ان کے جسم نے انکا ساتھ نہ دیا اور وہ جوانعمری میں اچانک موت کا شکار ہو گے۔ آج ہم جن مصائب و مسائل سے دوچار ہیں، ان پر غور کریں تو ہمیں وارث میر کی یاد بہت ستاتی ہے اور یہی آرزو ہے کہ کاش! وارث میر آج بھی ہمارے درمیان ہوتے اور اپنی علمی تحریروں کے چراغ روشن کر رہے ہوتے۔