تحریک طالبان نے پنجاب میں اپنا نیٹ ورک پھیلاناشروع کردیا

گزشتہ کچھ دنوں سے جنوبی پنجاب میں تحریک طالبان اکستان کی موجودگی کے حوالے سے مختلف طرح کی خبریں زیر گردش ہیں۔مختلف سوشل میڈیا چینلز پر زیر گردش ایک ویڈیو میں کالعدم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو جنوبی پنجاب میں موٹر سائیکلوں پر گھومتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ حکومتی ذمہ داران کی جانب سے  اس ویڈیو کو ٹی ٹی پی کی پنجاب میں موجودگی کے حوالے سے ایک ’پروپیگنڈا سٹنٹ‘ قرار دیا جا رہا ہے تاہم مبصرین کے مطابق اپریل اور مئی 2024 کے درمیان پنجاب کے مختلف علاقوں، خاص طور پر لاہور میں پولیس اور اس کی تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے والے تمام حملوں کی ذمہ داری داری  ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے شرپسند اور اس کے سہولتکار پنجاب میں بھی موجود ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ پنجاب میں ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، لیکن پنجاب میں اکا دکا حملے ٹی ٹی پی کے اپنے نیٹ ورک کو پنجاب میں پھیلانے کے ارادے اور آپریشنل صلاحیتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ مبصرین کے طابق افغان طالبان کی تنظیم نو کے بعد سے ٹی ٹی پی خیبرپخوتونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع سے آگے اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔اس ضمن میں ٹی ٹی پی بلوچستان میں کسی حد تک کامیاب رہی جبکہ پنجاب میں یہ کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی ٹی پی کے پنجاب میں داخل ہونے سے نہ صرف اسے مزید تشہیر حاصل کرنے میں مدد ملے گی بلکہ یہ شہری شورش میں بھی تبدیل ہو جائے گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دسمبر 2007 میں ٹی ٹی پی کی تشکیل کے بعد کشمیری عسکریت پسندوں اور شیعہ مخالف گروپوں کے باغی دھڑوں پر مشتمل پنجابی طالبان کے نام سے جانے والے عسکریت پسندوں کے ایک نیٹ ورک نے ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک مضبوط گٹھ جوڑ قائم کیا۔پنجابی طالبان ٹی ٹی پی کے پنجاب میں حملوں کے لیے سہولت فراہم کرتے تھے۔ 2015 میں جب ٹی ٹی پی بکھر گئی تو بہت سی وجوہات کی بنا پر کچھ پنجابی طالبان کے دھڑے برصغیر القاعدہ میں شامل ہو گئے جبکہ دیگر پس منظر میں چلے گئے۔ مبصرین کے مطابق حالیہ سالوں میں اپنے نئے تنظیمی ڈھانچے کے تحت ٹی ٹی پی نے پنجاب میں دو ولایتوں کا اعلان کیا ہے: جس میں شمالی پنجاب کے سربراہ سید ہلال غازی ہیں اور جنوبی پنجاب عمر معاویہ کے ماتحت ہے۔اطلاعات کے مطابق پنجاب میں ٹی ٹی پی کے پاس 250-300 عسکریت پسند موجود ہیں۔جولائی 2020 سے اب تک 65 عسکریت پسند گروہوں میں سے صرف دو عسکریت پسند گروپ ارشد بھٹی اور خالد بن ولید، پنجاب سے ٹی ٹی پی میں ضم ہوئے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں گروپوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے، جہاں دیوبندی نظریات کا اثر رسوخ زیادہ ہے۔

مبصرین کے مطابق ٹی ٹی پی کے جنوبی پنجاب کے دھڑے کا دعویٰ ہے کہ اس کے بینر تلے 10 ذیلی گروپ کام کر رہے ہیں۔ شمالی اور جنوبی پنجاب کے لیے ٹی ٹی پی کے دو عہدے داروں کی ماضی میں بھی عسکری وابستگی تھی۔جیسا کہ سید ہلال، لال غازی مسجد کے طالب علم تھے اور انہوں نے پاکستان فوج کے آپریشن کے بعد 2007 میں ٹی ٹی پی کے ایک اہم دھڑے جماعت الاحرار کے ساتھ مل کر کام کیا۔مزید برآں، غازی کے لشکر جھنگوی کے اسلم فاروقی دھڑے کے ساتھ روابط مشہور ہیں۔2009اسی طرح لشکر جھنگوی سے وابستہ ایک سابق عسکریت پسند عمر معاویہ پنجاب میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اہل تشیع کے خلاف کئی حملوں میں ملوث رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی ٹی پی پنجاب میں بڑھنے کے لیے دو جہتی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ایک طرف یہ لشکر جھنگوی کے نیٹ ورک اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو پنجاب میں استعمال کر رہی ہے۔دوسری طرف ٹی ٹی پی کا سیاسی کمیشن بریلوی سخت گیر بنیاد پرست گروپ تحریک لبیک پاکستان کے حق میں بیانات جاری کرتا رہتا ہے۔اسی طرح ٹی ٹی پی کا سیاسی کمیشن جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کو پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے اپنے صفوں میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق آٹھ فروری کے انتخابات میں جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام کی خراب کارکردگی کے پیش نظر ٹی ٹی پی کو اپنے نظریاتی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک راستہ ملا۔ مبصرین کے مطابق ۔نتائج سے قطع نظر ٹی ٹی پی دوسرے عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ اپنے گٹھ جوڑ کا فائدہ اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہےبظاہر پنجاب میں ٹی ٹی پی کی موجودگی جنوبی حصوں میں زیادہ نمایاں ہے، جہاں دیوبندی نظریے کا  اثر رسوخ زیادہ ہے اس کے برعکس بریلویکتبہ فکر کی وسیع پیمانے پر پیروی کی وجہ سے پنجاب کے شمالی علاقوں میں ٹی ٹی پی کا نیٹ ورک واضح نہیں

Back to top button