تحریک انصاف کی قیادت عمران خان پر حملہ آور کیوں ہو گئی؟
معروف صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ 9 مئی کے افسوسناک واقعات میں ملوث مجرموں کی فوجی عدالتوں سے معافی اور رہائی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت نے انکا استقبال کر کے جو غیر ذمہ دارانہ حرکت کی ہے اس سے عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے آسانیاں نہیں بلکہ مذید مشکلات پیدا ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حرکت خود پر خودکش حملہ کرنے کے مترادف ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کہ قیادت بشمول عمران خان 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے بعد سے اتنی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود بنیادی مسئلہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنما بھی جانتے ہیں کہ اُن کی مشکلات کی اصل وجہ کیا ہے لیکن پارٹی کو ایک ایسے طبقہ نے ہائی جیک کیا ہوا ہے جو جذبات، غصہ، اور نفرت کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کیلئے تیار ہی نہیں۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ 9 مئی کے واقعات میں فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے جن مجرموں کو معافی ملی اور فوج نے رہا کیا، انہیں علی امین گنڈا پور کی حکومت نے ہیرو بنا کر پیش کیا، خیبر پختون خواہ ہاؤس پشاور میں ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد کر کے اُن کو ہار پہنائے گئے۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ 9 مئی 2023 کے حملوں پر شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے ایسا تاثر دیا گیا جیسے یہ مجرم کوئی بڑا معرکہ سر کر کے واپس لوٹے ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان مجرموں نے تحریری طور پر اپنی حرکتوں پر معافی مانگی تھی اور شرمندگی کا اظہار کیا تھا جس کے بعد ان کی معافی کی اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ انصار عباسی کہتے ہیں کہ ان مجرموں کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب منعقد کر کے تحریک انصاف کی قیادت نے فوج کو کیا پیغام دیا ہے؟ اس عمل سے پی ٹی آئی نے پاکستان کی کیا خدمت کی؟ کیا یہ تحریک انصاف کا اپنی قیادت پر ہی ایک اور خودکش حملہ نہیں؟
انصار عباسی کہتے ہیں کہ ایک طرف تو تحریک انصاف کے یوتھیے لیڈرز 9 مئی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ تو فالس فلیگ آپریشن تھا یعنی یہ تو تحریک انصاف کے خلاف سازش تھی، اور اُس کا پی ٹی آئی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔لیکن دوسری جانب 9 مئی 2023 کے حملوں میں ملوث ان مجرموں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جن کی ویڈیوز بطور ثبوت موجود تھیں اور پھر بھی فوجی عدالتوں نے رحم کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کیا۔ انصار عباسی کہتے ہیں کہ اگر 9 مئی غلط تھا تو پھر ان مجرموں کااستقبال کیوں کیا گیا، اس حرکت کا مقصد فوج اور فوجی قیادت کو مزید غصہ دلوانا نہیں تو اور کیا ہے؟ اس سے 9 مئی جیسے واقعات کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی تو اور کیا یو رہا ہے؟ ایسا عمل ایک سیاسی جماعت کا کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن محسوس ایسا ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف فوج مخالف سوچ سے باہر نہیں نکلنا چاہ رہی۔ ایسے طفلانہ اور نفرت انگیز طرزعمل سے مشکل سے شروع ہونے والے مذاکراتی عمل پر کیا منفی اثرات نہیں پڑیں گے؟ کیا تحریک انصاف والے یہ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فوج کے ساتھ لڑائی جاری رکھنے سے اُنہیں سیاسی طور پر کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ اُن کی اپنی مشکلات اور تکلیفیں ہی بڑھتی رہیں گی۔
انصار عباسی کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف کی مرکزی قیادت فوج کے ساتھ لڑائی کو آگے بڑھا کر اس ملک میں مزید 9 مئی کرنے کے خواہش مند ہے تو کیا ایسی صورت حال پاکستان کے مفاد میں ہو سکتی ہے؟ جب تک تحریک انصاف اپنے غصے اور نفرت کی سیاست سے باہر نہیں نکلتی، کسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس سلسلے میں سب سے اہم ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے۔ عمران خان کو اپنی ذات کی بجائے پاکستان کے بارے میں سوچنا چاہیے۔اُ نہیں اپنے اُس غصے اور منفی سیاست سے فاصلہ اختیار کرنا چاہیے جو نہ صرف اُن کے اقتدار کے خاتمہ کا باعث بنا بلکہ اُنہیں جیل تک پہنچا دیا۔ تحریک انصاف جس نفرت کی سیاست کا شکار ہے اُس سے پارٹی کو صرف عمران خان ہی نکال سکتے ہیں۔ لیکن اپنے کچھ رہنمائوں کے مشورے کے باوجود عمران ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان اگر اپنا رویہ بدل دیں اور اپنے سوشل میڈیا اور باہر بیٹھے انصافیوں کو پاکستان مخالف اور فوج مخالف اقدامات اور پروپیگنڈے سے روکیں تو تحریک انصاف کی سیاست کیلئے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اس سے تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی فائدہ ہو گا لیکن ایسا ہو نہیں رہا اور یوں پی ٹی آئی کے خودکش حملے جاری و ساری ہیں جو عمران خان، اُن کی سیاست کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔