اگر محمود غزنوی لٹیرا تھا تو غزنوی میزائل کا نام کیوں نہیں بدلتے؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی جانب سے سومنات کے بت توڑنے والے محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دینے کے بعد انڈیا اور پاکستان میں ایک بحث کا آغاز ہو گیا ہے اور اہم ترین سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر محمود غزنوی لٹیرا تھا تو پھر پاکستان آرمی نے اپنے سب سے خطرناک میزائل کا نام غزنوی کیوں رکھا؟ سوال یہ بھی یے کہ کیا وزیر دفاع کے اس بیان کے بعد محمود غزنوی کے نام پر رکھے جانے والے غزنوی میزائل کا نام تبدیل کیا جائے گا؟
حامد میر کہتے ہیں کہ محمود غزنوی کا رگڑا اس لیے نکالا گیا ہے کہ آج کل افغانوں کے خلاف بولنے کا فیشن چل رہا ہے اور غزنوی بھی افغانی تھا، لیکن افغانوں سے نفرت اچھی بات نہیں۔ اگر وزیر دفاع کو افغان بہت برے لگتے ہیں تو براہ کرم اپنے میزائلوں کے نام بدل دیں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ برصغیر پر قابض برطانوی فوج کیخلاف 1857 میں ہونے والی بغاوت کے بعد سے کئی برطانوی تاریخ دانوں نے محمود غزنوی کو ایک لٹیرے کے طور پر پیش کیا۔ یہ مسخ شدہ تاریخ لکھنے کا مقصد ہندوئوں اور مسلمانوں میں فاصلے پیدا کرنا تھا۔ ان مصنفین نے یہ تاثر بھی دیا کہ برصغیر پاک وہند میں اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا گیا۔ انہی برطانوی مصنفین کی لکھی ہوئی تاریخ کو بنیاد بنا کر کچھ ہندو انتہاپسندوں نے بھی محمود غزنوی کی خوب کردار کشی کی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ کچھ مسلمان تاریخ دانوں نے بھی سومنات پر محمود غزنوی کے حملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اصل حقیقت خرافات میں کھو گئی۔
حامد میر کہتے ہیں کہ آج بھی جب ہندو انتہا پسند بابری مسجد پر حملے اور مسلمانوں سے اپنی نفرت کی وجوہات پر تقریریں کرتے ہیں تو محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دینا نہیں بھولتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب تو ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دیدیا ہے۔ وزیر دفاع کے اس بیان نے صرف پاکستان نہیں بلکہ بھارت میں بھی کئی بحثوں کو جنم دیا ہے۔ میں نے بھی خواجہ آصف سے پوچھا کہ اگر محمود غزنوی لٹیرا تھا تو پھر پاکستان نے اپنے میزائل کا نام غزنوی کے نام پر کیوں رکھا؟ جواب میں انہوں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ غزنوی میزائل کا نام میں نے نہیں رکھا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ یہ حقیقت بڑی دلچسپ ہے کہ غزنوی حتف تھری میزائیل کی تیاری 1993ء میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں شروع ہوئی۔ انہی کے دور میں ابدالی یعنی حتف ٹو میزائیل اور غوری یعنی حتف فور میزاییل پر بھی کام شروع ہوا۔ ان تمام تر میزائلوں کے تسریخی ناموں کی منظوری محترمہ بے نظیر بھٹو نے دی تھی۔
ان پاکستانی میزائلوں کے نام ایسے افغان جنگجوئوں کے ناموں پر رکھے گئے جنہوں نے پرانے زمانے میں ہندوستان کے مختلف راجاؤں کو شکست دی تھی۔ پاکستانی میزائلوں کے ناموں کو افغان جنگجوؤں سے جوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ بتایا جائے کہ ہمارا میزائل پروگرام بھارت کے مقابلے کیلئے ہے کسی اور کیلئے نہیں ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ محمود غزنوی سے قبل محمد بن قاسم نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا لیکن پاکستان نے اپنے کسی میزائل کو محمد بن قاسم کا نام نہیں دیا۔ محمد بن قاسم کو بھی کچھ سندھی قومی پرست لٹیرا قرار دیتے ہیں لیکن خواجہ آصف نے محمد بن قاسم کو لٹیرا نہیں کہا شاید اس لئے کہ وہ عرب تھے۔
بقول حامد میر آج کل افغانوں پر تنقید کا فیشن ہے تو محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دیدیا گیا حالانکہ بھارتی تاریخ دان رومیلا تھاپڑ نے اپنی کتاب ’’سومنات‘‘ میں لکھا ہے کہ محمود غزنوی کی فوج میں بہت سے ہندو شامل تھے اور سومنات کا دفاع کرنے والی راجہ بھیما کی فوج میں کئی اسماعیلی شامل تھے۔ رومیلا تھاپڑ کے بقول مندروں پر حملے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو راجہ بھی کرتے تھے جسکا مقصد اپنی طاقت کی دھاک بٹھانا ہوتا تھا۔ رومیلا تھاپڑ نے یہ بھی لکھا کہ محمود غزنوی کو اس حملے کی دعوت ایک صوفی بزرگ مسعود غازی نے دی تھی کیونکہ سومنات میں مسلمانوں پر بہت ظلم ہوتا تھا۔ روزانہ ایک مسلمان کو اس مندر کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ ایک گجراتی مسلمان بیوہ کے اکلوتے بیٹے کو ہندو راجہ نے گرفتار کرلیا تھا اور یہی بیوہ اپنی فریاد اور مسعود غازی کا خط لے کر محمود غزنوی کے پاس غزنی پہنچی تھی۔
حامد میر کہتے ہیں کہ اگر یہ روایات درست ہیں تو مسلمان سومنات میں پہلے سے موجود تھے۔ محمود غزنوی بعد میں آیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ محمود غزنوی اور محمد بن قاسم سے بہت پہلے عرب تاجروں کے ذریعہ اسلام ہندوستان میں پہنچ چکا تھا۔ محمد بن قاسم نے 712 جب کہ محمود غزنوی نے 1026 میں سومنات پر حملہ کیا۔
محمود غزنوی جیسا بھی تھا لیکن اہل علم اور صوفیا کا قدر دان تھا۔ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ بھی اس کے ہم عصر تھے اور محمود غزنوی ان کا بہت احترام کرتا تھا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ افغانستان سے صرف سلطان محمود غزنوی نہیں آیا تھا، حضرت علی ہجویریؒ بھی آئے تھے اسلئے افغانوں سے نفرت اچھی بات نہیں۔ اگر کسی کو افغان بہت برے لگتے ہیں تو براہ کرم اپنے میزائلوں کے نام بدل دیں۔
سینیئر صحافی مزید کہتے ہیں کہ اگر وزیر دفاع کی سلطان محمود غزنوی پر تنقید کا حالیہ پاک افغان کشیدگی سے کوئی تعلق نہیں تو پھر ابھی تک حکومت پاکستان کی جانب سے ابھی تک کوئی وضاحت کیوں نہیں آئی؟۔