روسی خفیہ ایجنسی KGB کی جگہ کس ایجنسی نے لی ہے؟


اگر کسی خفیہ ایجنسی کی کامیابی کا پیمانہ یہ ہو کہ وہ اتنی خفیہ رہے کہ کوئی اس کا نام بھی نہ جانتا ہو تو پھر روس کی ملٹری انٹیلجنس ایجنسی جی آر یو سب سے کامیاب ایجنسی ہے کیونکہ دنیا بھر میں عام لوگ اب تک یہی سمجھتے ہیں کہ روس کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی کا نام کے جی بی یے حالانکہ وہ اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ بھلے وقتوں میں دنیا بھر میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جے بی کا نام ہی گونجتا تھا۔
آج بھی عام لوگوں کے لیے یہ ایک خبر ہوگی کہ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ کے جی بی کا بھی خاتمہ ہوگیا تھا جس کی تمام ذمہ داریاں جی آر یو نے لے لی تھی جو اب خاموشی سے اپنے خفیہ گندے کام سرانجام دے رہی ہے۔ یاد رہے کہ تین دہائی قبل سوویت یونین کا شیرازہ تو بکھر گیا مگر آج بھی روس دنیا پر اپنی طاقت کی دھاک قائم رکھے ہوئے ہے۔ دنیا کی دیگر خفیہ ایجنسیاں کے جی بی کے بعد اب روس کی جی آر یو ملٹری انٹیلیجنس ایجنسی کو خوف کی علامت سمجھتی ہیں۔ اس خفیہ ایجنسی کا نام تب عالمی میڈیا میں سامنے آیا جب برطانیہ نے جی آر یو ہی پر الزام لگایا کہ اسنے 2018 میں برطانیہ کے شہر سیلیسبری میں ایک سابق جاسوس سرگئی سکرپل اور اس کی بیٹی کو مارنے کی کوشش کی تھی۔ اب امریکی حکومت بھی اسی جی آر یو پر بڑے بڑے سائبر حملے کرنے کا الزام عائد کررہی ہے۔ جی آر یو کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ یوکرین اور شام میں بھی سرگرم ہے۔ حال ہی میں جی آر یو کے دو روسی جاسوسوں کو 2014 میں جمہوریہ چیک میں ہونے والے دھماکوں سے جوڑا گیا ہے جن پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے ہی سیلیسبری میں سابق ڈبل ایجنٹ سرگئی سکرپل اور ان کی بیٹی یولیا سکرپل کو زہر دے کر مارنے کی کوشش کی تھی۔
یاد رہے کہ روس کے پاس باقاعدہ ملٹری انیٹیلجس سروس دو سو سال سے ہے۔ نیپولین جنگوں کے وقت سے اسپیشل بیورو کے نام سے انٹیلیجنس ایجنسی موجود تھی۔ 1917 کے روسی انقلاب کے بعد اسپیشل بیورو کو از سر نو منظم کیا گیا اور اس کا نام جی آر یو رکھا گیا۔ جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی تو جی آر یو کو جرمنی اور اس کے اتحادیوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ سرد جنگ کے دوران اس کی کامیابیوں میں سے ایک بڑی کامیابی برطانیہ کے ایٹمی پروگرام میں داخل ہونا تھا۔ جی آر یو کے پاس اپنے خصوصی دستے بھی ہیں جو نگرانی اور تخریبی کاروائیاں کرتے ہیں۔
متحدہ سوویت یونین کے زمانے میں جی آر یو بیرونی ممالک میں بھی متحرک ہوتی تھی اور اسی نے 1979 میں افغانستان میں روسی یلغار کی راہ ہموار کی تھی۔ جب سوویت یونین ٹوٹ گیا تو جی آر یو کی حریف ایجنسی کے جی بی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، جن میں ایک حصے کو ایف ایس بی کا نام دیا گیا جس کے فرائص ملک کے اندرونی حالات پر نظر رکھنا تھا۔ روسی صدر ولادیمر پوتن اسی ایف ایس بی کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ کے جے بی کے دوسرے حصے کو ایس وی آر کا نام دیا گیا اور اس کے فرائض میں بیرون ملک جاسوسی تھا۔ لیکن جی آر یو اپنی جگہ موجود رہی۔
2010 میں جی آر یو میں تبدیلی ہوئی اور اس کا نام ’مین انٹیلیجنس ڈائریکٹریٹ‘ سے تبدیل کرکے ’مین ڈائریکٹریٹ‘ کر دیا گیا لیکن وہ اب بھی پرانے نام جی آر یو سے جانی جاتی ہے۔ امریکی کانگریس کےلیے تیار ہونے والی ایک رپورٹ میں جی آر یو کو ایک ’بڑی، وسیع اور طاقتور تنظیم‘ کہا گیا لیکن کسی کو اس کے صحیح سائز اور اس کی کارروائیوں کے بارے میں علم نہیں ہے۔ روسی وزارت دفاع کی ویب سائٹ پر اس کا مختصر سا ذکر ہے لیکن اس تنظیم کی اپنی کوئی ویب سائٹ ہی نہیں ہے۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق جی آر یو کے فرائض میں ’ایسا سازگار ماحول پیدا کرنا ہے جس سے روس کی دفاعی اور سکیورٹی پالیسی کو نافذ کیا جا سکے۔ اس کے فرائض میں ایسی معاشی، دفاعی، سائسنسی اور تکنیکی معلومات کا حصول ہے جس کی بیناد پر پالیسی ساز اپنے فیصلے کر سکیں۔‘
جی آر یو کے بارے میں رازداری اتنی زیادہ ہے کہ جب 2016 میں اس کے سربراہ اگور سرگن اچانک وفات پا گئے تو ابتدائی اعلان میں نہ تو ان کے وفات پانے کی وجہ اور نہ ہی جگہ کا نام ظاہر کیا گیا۔ کرائمیا کو 2014 میں روس میں شامل کیے جانے کے بعد یورپی یونین اور امریکہ نے سابق سربراہ اگور سرگن پر پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔ یورپی یونین نے انہیں یوکرین کی خونی جنگ میں جی آر یو کی کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ سکیورٹی کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ جب جی آر یو میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں بھی ہوئیں تب بھی اگور سرگن نے اس کے باوجود ایجنسی کے کام کو متاثر نہیں ہونے دیا اور وہ یوکرین میں ایف ایس بی سے زیادہ موثر ثابت ہوئی۔ اگور سرگن اس وقت زندہ نہیں تھے جب ان کی ایجنسی پر ہیلری کلنٹن کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران ان کی ہزاروں پرائیوٹ میلز کو ہیک کرکے لیک کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس کا بظاہر مقصد ہیلری کلنٹن کو انتخابات میں نقصان پہنچانا تھا کیوں کہ وہ روس کے خلاف تھیں۔ اس کے بعد امریکی محکمہ انصاف نے 12 روسی شہریوں کے خلاف سائبر جرائم کا مقدمہ درج کیا تھا۔ ان افراد پر الزام تھا کہ وہ جی آر یو کے افسران ہیں۔ روسی حکومت نے ردعمل میں کہا تھا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں جو ان 12 افراد کا ملٹری انٹیلیجنس یا ہیکنگ سے تعلق ثابت کر سکیں۔ جی آر یو نے امریکی ڈیموکریٹ پارٹی کو سائبر حملوں کا نشانہ بنایا اور یوکرین میں آپریشن کیے اور اپنے اہداف حاصل کیے۔ ہوں ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن ہار گئیں اور ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button