غریب طبقہ شہری علاقے چھوڑنے پر مجبور کیوں ہوگیا؟

ہوشربا مہنگائی، بے روزگاری، گرتی معیشت نے غریبوں کا جینا محال کر دیا ہے، دیہات سے شہروں میں روزی کمانے آنے والے غریبوں کی تعداد آبائی علاقوں کو واپس جانے پر مجبور ہوگئی ہے کیونکہ اب شہروں میں رہ کر اخراجات مکمل کرنا آسان نہیں رہا۔سلمہ فہیم کی اپنے شوہر محمد سے پچھلے چار ماہ سے بات نہیں ہوسکی ہے۔ محمد جون میں اپنے بیوی بچوں کو خیبر پختونخواہ میں اپنے آبائی گاؤں میں چھوڑ کر گیا تھا کیونکہ وہ کراچی میں اپنی فیملی کے اخراجات پورے نہیں کر پا رہا تھا۔سلمہ اب شہری سہولیات سے بھی محروم ہو گئی ہیں، انہیں پانی بھرنے کے لیے ایک گھنٹے کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور وہ گیس کے بغیر لکڑیوں کے چولہے پر کھانا پکاتی ہیں، بطور ایک خاتون خانہ سلمہ کے لیے مشکلات کم ہونے کی بجائے مزید پڑھ گئی ہیں۔ ادھر محمد بھی اس فیصلے سے خوش نہیں۔ وہ کہتے ہیں، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔فرنیچر کے کاروبار سے وابستہ لوڈر فہیم کا کہنا ہے کہ ان کی ماہانہ آمدنی پینتیس ہزار روپے ہے اور ان کے لیے "اتنی کم رقم کے ساتھ گزارا کرنا ناممکن ہوگیا ہے، مستقبل قریب میں ریلیف کی امید کے دم توڑنے کے بعد لوگ خود ہی اپنے اخراجات کم کرنے کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔بطور پلمبر کام کرنے والے وسیم انور کہتے ہیں کہ اپنے آبائی گاؤں واپس جانے کا فیصلہ آسان نہیں تھا، انور مئی میں اپنی بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ لاہور سے تقریباً چار گھنٹے کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹے سے قصبے میں منتقل ہوگئے تھے، انور کے بقول اگرچہ یہاں کام کے مواقع اتنے زیادہ نہیں ہیں، لیکن میرے دیگر اخراجات میں تقریباً نصف تک کمی نے کافی حد تک ریلیف فراہم کیا ہے۔گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال گیلانی کہتے ہیں، "ہمارے بہت سے سروے بتاتے ہیں کہ اخراجات میں کمی ایک اہم طریقہ ہے جس کے ذریعے لوگ مہنگائی کے اس سیلاب سے بچ رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس دوسرے راستے، مثال کے طور پر اوور ٹائم کر کے یا دوسری نوکری کر کے زیادہ پیسے کمانے کے بھی کوئی امکانات نہیں ہیں۔پاکستان کی موجودہ نگران حکومت نے کہا ہے کہ اسے توقع ہے کہ مہنگائی جلد کم ہو جائے گی لیکن اس نے ساتھ ہی خبردار بھی کیا کہ توانائی کے نرخوں میں اضافے اور ایندھن کی قیمتوں میں مزید اضافے کی وجہ سے نومبر میں قیمتیں بلند رہیں گی۔پالیسی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو قلیل مدت میں سیلز لیوی جیسے ٹیکسوں کو کم کر کے، ٹارگیٹڈ سبسڈی سسٹم متعارف کروا کر غریب گھرانوں کی مدد کرنی چاہئے، جس سے مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔کراچی میں قائم کلیکٹیو فار سوشل سائنس ریسرچ کے ڈائریکٹر حارث گزدار کا کہنا ہے کہ اگر توانائی کے لیے دی گئی ٹارگیٹڈ سبسڈی کو ایک مخصوص طبقے کے لیے مختص کیا جائے تو اس سے بھی بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔
—