مشکلات سے بچنے کیلئے ن لیگ کی زبان بندی کی سیاست

ملک میں اس وقت زبان بندی کی سیاست کا موسم پورے عروج پر ہے۔ حزب اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت چپ کی سیاست کر رہی ہے۔ ن لیگ کے مرکزی رہنما نہ تو مزاحتمی سیاست کر رہے ہیں اور نہ ہی مفاہمتی سیاست کر رہے ہیں۔ وہ صرف خاموشی کی سیاست کر رہے ہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کی خاموشی نہ صرف حیران کن بلکہ معنی خیز بھی ہے کیونکہ دونوں رہنما عام انتخابات سے قبل تمام ترنتائج کی پرواہ کیے بغیر مسلسل بول رہے تھے۔ ادھر انتخابات ختم ہوئے۔ ادھر وہ بھی خاموش ہو گئے۔ بعد ازاں وہ جیل چلے گئے، رہائی ہو گئی لیکن خاموشی برقرار رہی اور شاید یہی زبان بندی ان کی رہائی کی قیمت ہے۔
عمومی تاثر بھی یہی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی رہائی میں ان کی خاموشی کا بہت ذیادہ عمل دخل ہے اور یہ رہائی تب تک رہے گی جب تک وہ خاموش رہیں گے۔ یعنی زبان بندی اور رہائی ایک دوسرے سے مشروط ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایک بڑا ووٹ بینک رکھنے والے حزب اختلاف کے سیاستدانوں کی مکمل خاموشی نے انکی حمایتیوں کو تجسس میں ڈال رکھا ہے جس سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ ابھی کچھ عرصہ اور بھی خاموش رہیں گے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ حزب اختلاف کے مرکزی رہنماوں کی خاموشی نے اپوزیشن کی حکومت مخالف مہم کوکمزور کردیا ہے۔ یہ عمومی تاثر ہے کہ سیاسی میدان میں ان سیاستدانوں کی خاموشی کا مقصد مزید پریشانیوں سے بچنا ہے۔ یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ضمانتوں کی صورت میں انہیں فراہم کیا گیا ریلیف اس یقین دہانی کے ساتھ ملا کہ وہ سیاسی طور پر بے آواز رہیں گے۔
قبل ازیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے سیاست کو ایک جانب رکھنے کا واضح پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ میری والدہ بیگم کلثوم کے انتقال کے بعد میں صرف اپنے والد کے ساتھ رہ گئی ہوں۔ میں ان کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ سیاست تو پوری زندگی چلتی رہے گی لیکن ایک مرتبہ والدین دنیا سے چلے جائیں تو وہ کسی کو واپس نہیں ملتے۔ اس وقت ان کی صحت میرے لئے بہت اہم ہے اور میں ان کی نازک حالت کے باعث ایک لمحے کیلئے بھی انہیں تنہانہیں چھوڑ سکتی۔ مسلم لیگ نون کے بڑے رہنما یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ مریم نواز پھر سے کب متحرک ہوں گی۔ فی الحال ان کی پہلی ترجیح لندن جانے کیلئے لاہور ہائی کورٹ کی اجازت حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اپنے والد کے پاس ہوں جو اس وقت حساس سرجری کیلئے ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ حکومت نے ان کی درخواست سختی سے مسترد کردی ہے۔
نواز شریف اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ سے اپنے بیرون ملک علاج کیلئے منظور کی گئی ضمانتوں کے بعد سیاست میں سرگرمی نہیں دکھا سکتے۔ تاہم سیاسی بیانات جاری کرنے سے دور رہنے کے باوجود وہ نون لیگ کے فیصلہ سازی کے عمل میں پہلے ہی کی طرح شامل ہیں۔
نون لیگ کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف مکمل طور پر تو خاموش نہیں ہوئے لیکن سیاسی میدان میں اتنے متحرک بھی نہیں جیسا کہ انہیں ہونا چاہیے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ جس طرح سے سیاسی صورتحال پروان چڑھ رہی ہے شہباز مزید پاکستان سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں یہ فیصلہ اسٹیبلشمنٹ نے کرنا ہے کہ شریف خاندان کو کب اور کیا بولنا ہے۔