خورشید شاہ کو مزید حراست میںرکھنا غیرقانونی قرار

پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کی مزید گرفتاری کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا ہے، عدالت عظمیٰ کے مطابق نیب کے پاس جرم ثابت کرنے کے لیے مناسب مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں ریمارکس دیئے کہ نیب ایسا کوئی بھی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے جس سے ظاہر ہو کہ جائیدادیں، جو مبینہ طور پر دوسروں لوگوں کے نام پر بے نامی دار کے طور پر خورشید شاہ کی ملکیت ہیں۔
سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس سید منصور علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 21 اکتوبر میں خورشید شاہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل رکھنے کی شرط کے ساتھ، ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے اور ایک کروڑ روپے کا شورٹی بانڈ جمع کرانے پر ضمانت دی تھی۔
خورشید شاہ کو نیب کی جانب سے 18 ستمبر 2019 میں اُس وقت اسلام آباد سے گرفتار کیا تھا جب وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے گئے تھے، نیب نے سینئر پی پی پی رہنما پر ان کی بیویوں، بیٹوں اور ان کے بے نامی دار شخص پر اپنے معلوم ذرائع آمدن سے زائد جائیدادیں اور اثاثے بنانے اور رکھنے کا الزام لگایا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب یہ بتانے میں ناکام رہا ہے کہ خورشید شاہ اور ان کے اہل خانہ اثاثے اور ان کے ذرائع آمدن جو اب جمع کر لیے گئے ہیں وہ نیب کی گزشتہ تفتیشوں کے دوران کیوں دستیاب نہیں تھے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے ویسٹ پاکستان لینڈ ریونیو اسسمنٹ رولز 1968 کے رولز 3 کے تحت درخواست گزار کی زرعی آمدنی کا اندازہ نہیں لگایا، نہ ہی اس کو ان کے معلوم ذرائع آمدن میں شامل کیا۔
آخری قہقہہ کس کا؟
درخواست گزار کو موجودہ کیس میں 18 ستمبر 2019 کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ عبوری ریفرنس پر ٹرائل کا سامنا کر رہا ہے، اس کی گرفتاری کو اب تک دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔