میڈیا مخالف قانون کے خلاف احتجاج کا نیا منصوبہ

کپتان حکومت نے صحافتی تنظیموں کی جانب سے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی قانون کے خلاف احتجاج کی کال دیئے جانے کے بعد 10 ستمبر کو ہونے والا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کرونا وائرس کی آڑ میں مؤخر تو کردیا تاہم صحافیوں کا کہنا ہے کہ اب وہ 13 ستمبر کو بلائے جانے والے اجلاس سے ایک رات پہلے 12 ستمبر کو پارلیمنٹ کے سامنے ڈیرے ڈال لیں گے اور اس کالے قانون کو واپس لئے جانے تک احتجاج جاری رکھیں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی تمام بڑی صحافی تنظیموں نے مجوزہ میڈیا اتھارٹی قانون مسترد کرتے ہوئے اسے ملک میں میڈیا مارشل لاء نافذ کرنے کے کی کوشش قرار دیا ہے۔ صحافتی تنظیموں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر 10 ستمبر کو پارلیمنٹ کے باہر بھر پور احتجاج کا اعلان کر رکھا تھا۔ تاہم وفاقی حکومت نے اس مشترکہ اجلاس کو دو روز کے لیے کرونا کی آڑ میں موخر کرتے ہوئے 13 ستمبر کو بلا لیا ہے۔ چنانچہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور راولپنڈی اسلام آباد جرنلسٹس ایکشن کمیٹی نے اب اپنا احتجاج 12 ستمبر کی رات پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو 13 ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے موقع پر بھی جاری رہے گا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل نے بھی صحافیوں کے احتجاج کی بھرپور حمایت اور اس میں شرکت کا اعلان کیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لالہ لطیف آفریدی نے کہا ہے کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے میڈیائی مارشل لاء کے نفاذ کا راستہ روکنے کے لیے وکلا برادری صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گی اور مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔ لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ میڈیا اور عدلیہ کو غلام بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح میڈیا عدلیہ کو غلام بنانے کی سازشوں کو بے نقاب کر رہا ہے اسی طرح وکلاء برادری بھی بھی میڈیا مارشل لاء لگانے کی کوششوں کو ناکام بنانے میں اپنا حصہ ڈالے گی۔ اس حوالے سے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل خوش دل خان کا کہنا تھا کہ وہ اور انکے ساتھی میڈیا کی آزادی کے لیے صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور میڈیا کی رہی سہی آزادی چھیننے کی حکومتی کوشش کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا جائے گا۔ راولپنڈی اسلام آباد فریڈم ایکش کے سربراہ افضل بٹ نے کہا ہے کہ ملک بھر کے صحافی حضرات اپوزیشن جماعتوں، وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنان کے ساتھ مل کر میڈیا اتھارٹی جیسے کالے قانون کا راستہ روکیں گے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی نمائندہ نسرین ناصر نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت اور میڈیا کو پنپنے سے روکا جا رہا ہے جس پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف حکومت نے ذرائع ابلاغ کے لیے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی یا پی ایم ڈی اے کے نام سے ایک ریگولٹر بنانے کی تجویز دی ہے جسے نہ صرف اپوزیشن بلکہ صحافتی تنظیموں کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مجوزہ اتھارٹی کو آزادئی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی آمرانہ کوشش قرار دی جا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے تجویز کردہ اس اتھارٹی میں سب سے زیادہ متنازع سمجھی جانے والی شق غلط خبر کے نشر ہونے پر جرمانے اور سزا کی تجویز دی گئی ہے۔ غلط خبر نشر ہونے پر صحافتی ادارے پر 25 کروڑ جبکہ صحافی پر ڈھائی کروڑ روپے تک جرمانے اور تین سال قید تک سزا دینے کی تجویز بھی ہے۔ اس اتھارٹی پر وجہ تنقید بننے والی دوسری شق ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے ہے، جس میں ڈیجیٹل میڈیا کو رجسٹر کرنے یا این او سی حاصل کرنا ضروری قرار دینے کی تجویز ہے جسے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید اور آزاد آوازوں کو دبانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ اس آمرانہ اتھارٹی کے تحت کسی بھی میڈیا پلیٹ فارم کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک مدت کے لیے کام کرنے سے روکنے کا اختیار دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ اس کے علاوہ اتھارٹی کے تحت ریاست کے سربراہ، مسلح افواج کے سربراہ کے علاوہ قانون ساز اداروں کی بدنامی کا باعث بننے والے مواد نشر کرنے پر پابندی ہوگی۔