پاکستانی عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کی رکھیل کیوں بن چکی ہے؟


نظریہ ضرورت سے لے کر نظریہ سہولت تک پاکستان کی عدالتی تاریخ نہ تو قابل فخر ہے اور نہ ہی قابل تحریر ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کی وجہ سے اب عدالتیں اتنی بےلگام ہو چکی ہیں کہ وہ آئین کی تشریح کرنے کی آڑ میں آئین میں ترامیم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں جو کہ پارلیمنٹ کا اختیار یے۔ وقت نے 75 برس پرورش کی ہے مگر ملک میں جمہوریت اور آئین کو سرنگوں کرنے کے لیے۔ پیچھے مُڑ کر دیکھیں تو پچھتاوے اور آگے دیکھیں تو وسوسے۔ اور آج ہمارا پاکستان انہی وسوسوں اور پچھتاووں کے درمیان پھنس کر رہ گیا ہے۔
بات کہاں ختم ہو گی نہیں پتا مگر بات کہاں سے شروع ہوئی یہ بات کچھ طویل ہے۔

بی بی سی کے لیے ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی اپنی تازہ تحریر میں کہتی ہیں کہ نظریہ ضرورت سے لے کر نظریہ سہولت تک عدالتی تاریخ نہ تو قابل فخر ہے اور نہ ہی قابل تحریر۔ بھٹو کا عدالتی قتل ہو یا ضیا الحق کی آمریت، مشرف کے دور کی توثیق ہو یا وزرائے اعظم کو بیک جنبش قلم گھر بھیجنے کی روایت، عدالتی تاریخ سیاہ وارداتوں سے بھری پڑی ہے۔ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے جو تاریخ کے اوراق کبھی معاف نہیں کرتے۔ سچ تاریک کال کوٹھریوں سے سورج کی مانند چمک کر اُبھرتا ہے اور تاریخ کے ترازو میں انصاف کا وزن، زمانے اُٹھاتے ہیں۔ انکا کہنا یے کہ تاریخ تو اب بھی بن رہی ہے مگر کچھ اور طرح سے۔ کبھی منصف اپنے ترازو میں انصاف آمریت کے پلڑے میں ڈال کر ناجائز اقتدار کو قبولیت کی سند دیتا رہا تو کبھی جمہوریت کے شب خون پر قلم توڑ مہر لگتی رہی، مگر اب حالات مختلف ہیں، اب معاملہ صرف عدلیہ تک نہیں رہ گیا۔

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ میمو گیٹ ہو یا وزیراعظم گیلانی کی جانب سے صدر کے استثنیٰ کی صورت آئینی اختیار کے تحت سوئس حکومت کو خط سے انکار کا معاملہ، پانامہ کیس میں اقامہ پر نواز شریف کی برطرفی ہو یا جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ، پاکستانی وزرائے اعظم کو مسلسل اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر متنازعہ عدالتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ اور اب عدالتیں اس قدر با اختیار ہو چکی ہیں کہ آئین کی تشریح کی بجائے آئین میں ترمیم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ بہرحال یہ آئینی معاملہ عدالت میں ہے کہ سیاسی جماعت کا سربراہ اہم یا پارلیمانی لیڈر کا رُتبہ بُلند۔۔۔ ذرا بڑے کینوس پر نظر دوڑایے۔ نومبر قریب ہے اور یہ ستمگر نومبر اپنی جادوئی تاریخ تک کیا کیا ستم ڈھائے گا نہیں معلوم۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ نومبر میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی تک گیم آن ہے، اسے بدقسمتی کہیے کہ عہدے اور اختیار کی جنگ اب ریاست اور سیاست بچانے کا نعرہ بن چُکی ہے۔

عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ کہ تین ماہ قبل حکومت سنبھالنے والی سیاسی جماعتیں جب تک ’غیر جانبداری‘ کے سپنے سے بیدار ہوئیں تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ مسلسل کئی سال تک عوام کو سیاست سے متنفر کر کے جس رہنما کے خواب آنکھوں کو عطیتاً بخشے گئے، اُن آنکھوں کو کبھی تعبیر سے روشناس ہی نہیں کرایا گیا، اب جب معاشی حقیقتیں کھُل رہی ہیں تو آنکھیں اندھی ہو رہی ہیں۔ عاصمہ کا کہنا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمینٹ کے اختیارات عدالت کو تفویض ہو رہے ہیں اور شخصی آمریت کی مثالیں دینے والے خود اشخاص کی آمریت کے پروردہ بن رہے ہیں۔ دھمکی، دھونس اور زبردستی کے سامنے آئین پاکستان محض کاغذ کا ٹکڑا ہے اور ناپائیدار جمہوریت کو آمریت سے زیادہ فسطائیت سے خطرہ ہے۔

عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ پچھلے چار برسوں میں بہت سلیقے سے پارلیمانی جمہوریت کو صدارتی آرڈیننسز کے ذریعے کنٹرول کیا گیا۔ آئینی بالادستی کو عدالتی فیصلوں کے کنٹرول میں دیا گیا۔ "منتخب” نمائندوں کو "چنتخب” کرانے کا آر ٹی ایس سسٹم لگایا گیا، یوں بہت محنت سے بچے کھچے جمہوری معاشرے کو کنٹرولڈ سماج میں تبدیل کیا گیا۔ صحافت، سیاست، معاشرت، ثقافت کو غیر مؤثر کرنے کے لیے بدنام کیا گیا تاکہ طاقت کا مرکز محفوظ رہے۔ مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ جو دھول دوسرے چہروں کو دھندلا کرنے کے لیے اُڑائی جائے آپ خود اُس کے نرغے میں نہ آئیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایسی رضیہ بن چکی یے جو غنڈوں میں پھنس گئی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ عوام میں مقبول ہو گیا۔ لیکن یہ سب کس کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور اس کی ذمہ داری کس پر ہے یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اب حکومتی اتحاد اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر واپس آ جائے گا جبکہ تحریک انصاف ایک بار پھر اُسی صفحے پر آ جائے گی جس کا ااس ے آسرا تھا۔ بیانیے کی اس جنگ میں عوام کسی پارٹی کے حق میں ہیں یا نہیں مگر فوجی اسٹیبلشمنٹ مخالف ضرور ہو گئے ہیں۔

عاصمہ شیرازی کے بقول کسی نے خوب کہا کہ چار سال پہلے ہاتھوں سے لگائی گانٹھیں، آج دانتوں سے بھی نہیں کھل رہیں اور نتیجتا معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تمام ادارے تفریق کا شکار ہیں، شخصیات ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفادات داؤ پر لگا رہی ہیں۔ آئین کی عملداری شخصیت پرستی کی نذر ہو رہی ہے، جمہوری نظام خطرے میں ہے اور بچی کھچی معاشی خودمختاری داؤ پر کگ چکی ہے۔ ایسے میں بچاؤ کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے آئین کا راستہ۔۔۔

Back to top button