’’پاکستانی دستاویزی فلم ایمی ایوارڈز کے لیے منتخب‘‘

پاکستانی دستاویزی فلم ’’معذوری کا شکار بچوں کے والدین ظالم نہیں مجبور ہوتے ہیں‘‘ ایمی ایوارڈز کے لیے نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، ’یہی لڑکی جس کو ہم نے پہلے زنجیروں میں جکڑا ہوا پایا، اس نے برلن میں سپیشل اولمپکس کے ورلڈ گیمز میں ٹارچ لائٹ کی اور وہاں پر سپیشل اولمپکس سے منسلک تمام لوگ فلم کی وجہ سے اُس کی کہانی جانتے تھے۔ وہاں سب ہی آبدیدہ تھے، یہ الفاظ پاکستانی فلم میکر زیاد ظفر کے ہیں جنھوں نے ایمی کے لیے نامزد ہونے والی دستاویزی فلم ’ایز فار ایز دے کین رن‘ (As Far as they can Run) میں بطور معاون پروڈیوسر کام کیا۔ زیاد نے اپنے ساتھی فلم میکر نادر صدیقی کے ساتھ بی بی سی اردو کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ اُن کی فلم کی کہانی سندھ کے معذوری کے شکار تین بچوں پر مشتمل ہے، جو سپورٹس اور ایتھلیٹکس کے ذریعے نہ صرف خود کو تبدیل کرتے ہیں بلکہ اپنے خاندان اور معاشرے کی سوچ کو بھی بدلتے ہیں۔اس فلم کی ڈائریکٹر ایرانی نژاد امریکی فلم میکر تاناز ایشاگہین ہیں جبکہ پاکستانی فلم میکرز نادر صدیقی، زیاد ظفر اور حیا فاطمہ اقبال نے اس فلم کو بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نادر صدیقی اور زیاد ظفر دونوں ہی اپنی فلم کو ملنے والی ایمی ایوارڈز نامزدگی پر بے حد خوش اور شکرگزار ہیں، انھوں نے یہ فلم 2020 میں کووڈ کی وبا پھیلنے سے پہلے عکس بند کرنا شروع کی تھی اور برسوں کی انتھک محنت کے بعد اُنھیں اس کا ثمر ملنا شروع ہوا، نادر صدیقی نے کہا کہ فلم کے لیے ایمی ایوارڈ کی نامزدگی ملنا ہی بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔اپنی دستاویزی فلم میں شامل کرداروں میں سے ایک ’ثنا‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کی آنکھوں میں فاخرانہ چمک نظر آئی۔انھوں نے انتہائی جذباتی اور پُرجوش انداز سے بتایا کہ ’ہماری ڈاکیومنٹری کی کہانی کا سب سے بڑا حصہ اُن کرداروں میں تبدیلی ہے۔میرپور خاص کے ایک گاؤں میں رہنے والی بچی ثنا کا خاندان ایک غریب گھرانہ ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ ایک جانور کی طرح بندھی ہوئی تھی۔ بہت حیرانی اور تکلیف محسوس ہوئی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔نادر کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں معذوری کے شکار بچوں کے والدین ظالم نہیں بلکہ مجبور ہیں۔ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے انھیں یہ نہیں معلوم کہ سپیشل بچوں کے ساتھ کیسے برتاؤ کیا جائے۔والدین سے بات ہوئی تو احساس ہوا کہ یہ بُرے لوگ نہیں۔ زیاد نے بتایا کہ ’اُس کے باپ کی بہت مجبوریاں تھیں، کچھ قرض بھی تھا اور وہ بچے کو بالکل توجہ نہیں دے سکا تھا، ’’کیسے سمجھاؤں کہ غربت انسان کو کتنا بے بس کر دیتی ہے‘‘، اُن کے خیال میں اس فلم کی بدولت خود انھوں نے بھی یہ سیکھا کہ کسی منظر کو دیکھتے ہی رائے قائم نہیں کر لینی چاہئے۔میں نے یہ دیکھا کہ میرا دور سے دیکھنے کا انداز بھی فوری رائے قائم کرنے جیسا تھا۔ جیسے پہلے دن میں نے دیکھا کہ ایک بچی بستر سے بندھی ہوئی ہے تو سب سے پہلی سوچ یہی تھی کہ کتنا ظلم ہے یہ۔ دو تین گھنٹے آپ اُن والدین سے بات کریں تو آپ سمجھتے ہیں کہ والدین کی بھی کتنی مجبوری ہے۔انھوں نے بتایا کہ میں ہمیشہ امتحان میں ہوتا تھا کہ پہلی دنیا کے اِن لوگوں کو کیسے سمجھاؤں کہ غربت انسان کو کتنا بے بس کر دیتی ہے۔ فلم میں ہم نے کوشش کی کہ ان چیزوں کے باوجود ان لوگوں کی انسانیت نمایاں ہو کر سامنے آئے۔حیا فاطمہ اقبال نے ایسے فلم میکرز کے کام کو فروغ دینے اور ایک پائیدار اور مضبوط کمیونٹی بنانے کے لیے ڈاکیومنٹری ایسوسی ایشن آف پاکستان (ڈیپ) کے نام سے گروپ بنا رکھا ہے۔نادر نے یہ بھی بتایا کہ اُنھیں افسوس ہے کہ اگر پاکستانی دستاویزی فلمیں دیکھنا ہوں تو آپ کو کسی نہ کسی انٹرنیشنل نیٹ ورک پر جانا پڑتا ہے حالانکہ یہ فلم پاکستانیوں کے بارے میں ہے، پاکستانیوں نے بنائی لیکن وہ کسی بھی مقامی چینل پر اُنھیں دیکھنے کو نہیں ملے گی، پاکستان میں دسیوں نیوز اور انٹرٹینمینٹ چینلز ہیں تو وہ دستاویزی فلمیں کیوں نہیں نشر کرتے، اس سوال کے جواب میں زیاد بولے کہ ہم ٹی وی پر بریکنگ نیوز اور بحث و مباحثہ کے عادی ہوگئے ہیں اور اس کے علاوہ ہمیں کچھ سوجھتا ہی نہیں۔