پاکستان میں موجود مسعود اظہرکی تلاش افغانستان میں کیوں؟
پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یا ایف اے ٹی ایف کے مسلسل مطالبے پربالآخرجہادی تنظیم جیش محمد کے بانی امیر مولانا مسعود اظہر کی گرفتاری کیلئے افغانستان حکومت کوخط لکھ دیا جس میں افغان حکام کو کہا گیا ہے کہ مولانا مسعود اظہر کو تلاش کر کے اطلاع دی جائے اور گرفتار کیا جائے۔ خط کے مطابق مسعود اظہر ممکنہ طور پر ننگرہار اور کنڑ کے علاقوں میں ہیں۔ گرفتاری کیلئے خط وفاقی وزارت خارجہ کی طرف سے لکھا گیا۔ لیکن دوسری جانب اسلام آباد کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بہتر ہوگا اگر پاکستانی حکام مسعود اظہر کو بہاولپور یا راولپنڈی کے کسی سیف ہائوس میں تلاش کریں کیونکہ انہیں تو بھارت میں ہونے والے پلوامہ حملے کے بعد عمران خان کے دور حکومت میں 5 مارچ 2019 کو ان کے بیٹے اور بھائی سمیت گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ مسعود اظہر پاکستانی حکام کی قید سے نکل کر اچانک افغانستان کیسے پہنچ سکتے ہیں، جو اب افغان حکومت سے انہیں پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد کے سفارتی حلقوں نے یاد دلایا ہے کہ تب کے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے خود اعلان کیا تھا کہ مسعود اظہر کے بیٹے اور انکے ایک رشتہ دار کے نام بھارت کی جانب سے پاکستان کو بھیجے گئے ڈوزئیر میں شامل تھے لہذا انہیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یہ کارروائی پلوامہ میں بھارتی فوجی قافلے پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد انڈیا اور عالمی دباؤ کے پیش نظر کی گئی تھی۔ تب کی میڈیا رپورٹس کے مطابق مسعود اظہر کے بیٹے اور بھائی سمیت جیش محمد سے وابستہ 44 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں مسعود اظہر کا بیٹا حماد اظہر اور انکا بھائی مفتی عبدالرؤف شامل تھے۔ چنانچہ اب تک یہی خیال کیا جارہا تھا کہ مسعود اظہر پاکستان میں ہی موجود ہیں لیکن اب اچانک حکومت پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے بانی امیر کی حوالگی کا مطالبہ کردیا ہے۔
یاد رہے کہ مسعود اظہر کو تب گرفتار کیا گیا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تعزیراتی کمیٹی نے جیش محمد کے سربراہ کو عالمی دہشت گروں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ اس سے قبل چار بار چین کی مخالف کی وجہ سے مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔ اس سے پہلے فروری 2019 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی سیکورٹی فورسز پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری جیش محمد نے قبول کی تھی جس میں 49 انڈین فوجی مارے گئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد امریکہ برطانیہ اور فرانس نے مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بلیک لسٹ کروانے کی تجویز دی تھی۔
پلوامہ حملے کے بعد عالمی ردعمل کے نتیجے میں پنجاب حکومت نے سخت کارروائی کرتے ہوئے بہاولپور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں واقع جیشِ محمد کے مرکزی مدرسے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔حکومت نے جیش محمد کا ہیڈ کوارٹر سمجھے جانے والے مدرستہ الاصابر اور جامع مسجد سبحان اللہ کے مدرسے کا انتظام سنبھالنے کے بعد وہاں ایک ایڈمنسٹریٹر بھی مقرر کر دیا تھا۔ تب مدرسے میں 70 اساتذہ جبکہ 600 طالبعلم زیر تعلیم تھے۔ تب یہ بتایا گیا تھا کہ مسعود اظہر کی گرفتاری اور انکے مدرسے کا کنٹرول سنبھالنے کا فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہوا تھا۔ تب بھارت نے یہ الزام لگایا تھا کہ مسعود اظہر کی ہینڈلر آئی ایس آئی ہے۔ یاد رہے کہ 2019 میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید تھے جو اب کور کمانڈر بہاولپور تعینات ہو چکے ہیں۔
بھارت 2019 سے پاکستان پر مسعود اظہر کی گرفتاری کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے جنہیں1999 میں ایک بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ کے نتیجے میں انڈیا سے رہائی ملی تھی۔ خیال رہے کہ مسعود اظہر بھی اپنے بیشتر ساتھیوں کی طرح افغانستان پر روس کے حملے اور اس کے خلاف افغان مجاہدین کی جدوجہد کے دنوں میں سرگرم ہوئے۔ پھر افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد انھوں نے لشکرِ طیبہ کے بانی حافظ سعید کی طرح اپنے "جہاد” کا رخ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی جانب موڑ دیا۔
مسعود اظہر جولائی 1968ء میں بہاولپور میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے والد سرکاری اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور دیو بند مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ مسعود اظہر کو مذہبی تعلیم دلانے کے لیے بہاولپور سے کراچی بھیجا گیا جہاں وہ بنوری ٹاؤن مسجد سے منسلک ‘جامعہ العلوم اسلامیہ’ میں زیرِ تعلیم رہے۔ اسی درس گاہ میں اُن کی ملاقات حرکت المجاہدین کے امیر فضل الرحمان خلیل سے ہوئی۔ عمر سعید شیخ بھی اُن کے قریبی دوست تھے جن کا نام بعد ازاں امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل کے سلسلے میں منظرِ عام پر آیا۔
مسعود اظہر نے افغانستان میں عسکری تربیت لی اور وہاں جاری روس کے خلاف لڑائی میں بھی حصہ لیا۔ لیکن افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے بعد مسعود اظہر بھارت کے زیرِ انتظام کشیمر چلے گئے اور وہاں انھوں پاکستان سے آنے والے عسکریت پسندوں کی مدد کی۔ یہ وہ وقت تھا جب کشمیر کا محاذ خاصا گرم تھا۔ 1994 میں کشمیر کے علاقے اننت ناگ میں ایک چھاپے کے دوارن بھارت کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مسعود اظہر کو حراست میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ہی اُن کے ساتھیوں نے انھیں چھڑانے کے لیے منصوبہ بندی شروع کی۔ مسعود اظہر کے ساتھیوں نے پہلے سری نگر میں ایک یورپی سیاح کو اغوا کیا اور اس کی رہائی کے عوض مسعود اظہر کو رہا کرنے کی شرط رکھی۔ مسعود اظہر کی حراست کے 10 ماہ بعد نئی دہلی میں کچھ سیاحوں کو نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور مغوی سیاحوں کی رہائی کے بدلے ایک بار پھر مسعود اظہر کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان دونوں کوششوں کے ناکام ہونے کے بعد آخرِ کار مسعود اظہر کو ان کے ساتھی ڈرامائی انداز میں رہا کرانے میں کامیاب ہوگئے۔
دسمبر 1999ء میں مسعود اظہر کے ساتھی ایک بھارتی مسافر طیارے کو اغوا کر کے افغانستان کے شہر قندھار لے گئے اور کئی دن کی بات چیت کے بعد جہاز اور اس میں سوار مسافروں کے بدلے مسعود اظہر کو رہا کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ تب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی۔ طالبان کے ساتھ بہتر تعلقات ہونے کے سبب چند دن قندھار میں قیام کرنے کے بعد مسعود اظہر پاکستان آ گئے۔ یہیں ان کے دیرینہ دوست فضل الرحمان خلیل اور اُن کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنی نئی جماعت جیشِ محمد بنانے کا اعلان کیا۔ پاکستان میں اپنی جماعت بنانے کے بعد مسعود اظہر نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی مسلح سرگرمیاں جاری رکھیں اور جنگجوئوں کی بھرتی کرنے کے بعد انہیں کشمیر میں لڑنے کے لیے عسکری تربیت دیتے رہے۔
بھارتی حکام نے اکتوبر 2001ء میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی اسمبلی اور دسمبر 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کی ذمہ داری جیشِ محمد پر عائد کی۔ عالمی دباؤ کے بعد 2002ء میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے جیشِ محمد پر پابندی لگادی اور مسعود اظہر کو نظر بند کر دیا۔ لیکن 14 دسمبر 2002ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ان کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ اسی دوران ان کی جماعت ‘تنظیمِ خدام الاسلام’ کے نام سے کام کرنے لگی لیکن اسے بھی بعد میں حکومتِ پاکستان نے کالعدم قرار دے دیا۔ اُس کے بعد مسعود اظہر نے گوشہ نشینی اپنائی اور بہاولپور میں ہی اپنے مدرسے میں مصروف رہے۔ لیکن 2019 میں بھارتی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہونے والے حملے کا الزام ایک بار جیشِ محمد پر عائد کیا گیا اور اس حوالے سے ثبوت اور شواہد بھی اسلام آباد پہنچائے گئے۔ بھارت کا موقف ہے کہ پاکستان مولانا مسعود اظہر کی کھلی حمایت کرتا ہے جسکا بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ چین کی مدد سے مولانا مسعود اظہر کے خلاف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی بھارتی قرارداد کو ویٹو کروا دیتا ہے۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان واقعی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اسے دنیا کے سامنے ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ جیشِ محمد جیسی کالعدم جماعتوں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ ہے۔ لہذا مولانا مسعود اظہر کو افغانستان میں ڈھونڈنے کی بجائے پاکستان میں ہی تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو بہتر ہوگا۔