پرائز بانڈز کیش کرانے کی مدت31 دسمبر تک بڑھ گئی

وفاقی حکومت نے 75 ہزار، 40 ہزار، 25 ہزار اور 15 ہزار روپے کے پرائز بانڈز کو نقدی میں تبدیل کرنے، بدلنے اور انعام حاصل کرنے کی آخری تاریخ 31 دسمبر 2021 تک بڑھا دی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے سٹیٹ بینک نے پرائز بانڈ کے عوض نقد رقم حاصل کرنے، انہیں تبدیل کرنے اور پرائز بانڈز واپس کرنے کی آخری تاریخ 30 ستمبر 2021 مقرر کی تھی۔
حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے 2019 میں پرائز بانڈز کو گردش سے نکالنے کا فیصلہ کیا تھا جس کا مقصد بڑی رقم کے بانڈز کے ذریعے کالے دھن کو کم کرنا تھا۔ خیال رہے کہ فنانس ڈویژن نے 24 جون 2019 کو 40 ہزار روپے مالیت کے قومی انعامی بانڈز کی فروخت پر پابندی عائد کردی تھی۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ یہ عمل ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے تحت ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے آئی ایم ایف اور عالمی بینک بھی پاکستان سے پرائز بانڈز پر پابندی لگانے کا کہہ چکا تھا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ بڑی مالیت کے پرائز بانڈز منی لانڈرنگ اور کالے دھن کو سفید کرنے کا سب سے آسان ذریعہ بن چکے ہیں۔ یہ بانڈز کرنسی نوٹوں کی طرح استعمال ہوتے ہیں کہ جس میں ایسی ٹرانزیکشنز کی جاتی ہیں جن میں غیر قانونی لین دین شامل ہو۔ جب کسی کا بانڈ لگ جاتا ہے تو کالے دھن میں ملوث افراد ان سے یہ بانڈ خرید لیتے ہیں اور انہیں رقم ادا کرکے اپنی غیر قانونی دولت کو سفید کرتے ہیں۔
لیکن کئی معاشی ماہرین نے بڑی مالیت کے پرائز بانڈز پر پابندی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میں تو اس پر بہت عرصہ پہلے پابندی لگ چکی ہے اور وہاں بیرئیر پرائز بانڈ کی خرید و فروخت نہیں کی جا سکتی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بیرئیر پرائز بانڈ پر پابندی ہر صورت لگنی چاہیے کیوں کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ جس کی جیب سے یہ بانڈ نکلے وہ اسی کا قرار پائے۔ رجسٹرڈ پرائز بانڈز صحیح طریقہ کار ہے یعنی کہ جس کے نام پر جاری ہوا ہو وہی دوبارہ اسے بینک میں جمع کرا سکے یا انعام لگنے کی صورت میں کیش کرا سکے۔ ماہرین نے اسے معیشت کو دستاویزی بنانے کی طرف بھی ایک اہم قدم قرار دیا اور کہا اس کے ذریعے جہاں کالے دھن کو سفید کرنے کا سلسلہ رک جائے گا وہیں معیشت کی زیادہ بہتر دستاویزی صورت بھی ابھرے گی۔
ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا بھی کہنا ہے کہ پرائز بانڈز کالے دھن کو سفید کرنے کا سب سے آسان ذریعہ ہے جن پر پابندی لگنی چاہیے۔ انہوں نے کہا وہ پانچ سال سے کہہ رہے تھے کہ اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے جائیں بلیک اکانومی کے اس ذریعے کو بند کیا جائے۔ خیال رہے کہ پرائز بانڈز قومی بچت اسکیموں کا حصہ ہیں جن میں ہونے والی سرمایہ کاری کے ذریعے اکٹھا ہونے ولی رقم حکومت اپنے مالی خسارے کو پورا کرنے کےلیے استعمال کرتی ہے۔
دوسری جانب بڑی مالیت کے پرائز بانڈز پر پابندی کے بعد لوگ رجسٹرڈ پرائز بانڈز پر جانے سے کترا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا کیوں کہ حکومت اب کمرشل بینکوں سے بہت زیادہ پیسہ اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا پرائز بانڈز میں دو تین سو ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے، دوسری جانب حکومت کے جانب سے لیے جانے والے 11500 ارب روپے کے سامنے یہ کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتی۔ لیخن اگر لوگ پرائز بانڈز اپنے نام پر رجسٹرڈ نہیں کرانا چاہتے اور اب اپنی بچت کو ڈالروں میں لگانا چاہتے ہیں تو حکومت کو اسکی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے حکومت کو ڈالر اکاؤنٹس پر پابندی لگا دینی چاہیے تاکہ لوگ ڈالر اپنے پاس نہ رکھ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے 20 ارب ڈالر ذخائر میں سے سات ارب ڈالر تو لوگوں کے کمرشل بینکوں کے اکاؤنٹس میں پڑے ہیں۔ ایسی صورت میں لوگ قومی بچت کی اسکیموں کی طرف آئیں گے۔