پیپلزپارٹی، ن لیگ کے انتخابی وعدے کتنے قابل عمل ہیں؟

پاکستان میں الیکشن قریب ہونے پر سیاسی سرگرمیاں خوب عروج پرہیں جبکہ ہر سیاسی جماعت کے انتخابی وعدوں کی بھی خوب دھوم ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس وقت جن بلند و بانگ انتخابی وعدوں کا شور ڈالا جا رہا ہے کیا ان پر عملدرآمد بھی ممکن ہے یا نہیں۔آئندہ ماہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے بلے کا نشان نہ ملنے کی وجہ سے اس کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ دنوں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت بننے کے بعد 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی مفت فراہم کرے گی۔پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا کہ حکومت بننے کے بعد ان کی کوشش ہو گی کہ صارفین کو 200 یونٹس استعمال کرنے پر بجلی مفت فراہم کی جائے۔ ملک میں گذشتہ سال بننے والی نئی سیاسی جماعت استـحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان کی جانب سے دسمبر کے مہینے میں کہا گیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی حکومت میں آتی ہے تو صارفین کو تین سو یونٹس تک بجلی مفت ملے گی۔پاکسان میں ایک عام آدمی اس وقت بلند شرح مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے اور اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 29 فیصد کے لگ بھگ ہے۔مہنگائی کی اس بلند شرح کی ایک وجہ بجلی کے بلوں میں ہونےوالا بے تحاشہ اضافہ بھی ہے جس میں گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔کراچی کے علاقے شیرشاہ میں کام کرنے والے منیر احمد بجلی کے بلوں میں اضافے سے پریشان ہیں تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے بجلی کے استعمال میں ریلیف پر انھیں یقین نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’یہ وہ لولی پاپ ہے جو ووٹ لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بلدیہ ٹاون کراچی کے رہائشی طارق شیخ نے گھر پر سولر سسٹم لگایا ہوا ہے تاکہ بجلی کے بل میں کمی آ سکے۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تین سو یونٹس تک مفت بجلی فراہمی کے اعلانات پر جہاں عام آدمی یقین نہیں کر رہا تو دوسری جانب توانائی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق یہ ناممکن ہے اور اسے صرف ایک سیاسی نعرہ ہی سمجھنا چاہئے۔انرجی شعبے کے ماہر راؤ عامر نے بھی مفت بجلی فراہمی کے اعلانات کو غیر حقیقی قرار دیا، انھوں نے کہا کہ ’کراس سبسڈی‘ کے ذریعے یہ بجلی نہیں دی جا سکتی کیونکہ انڈسٹری پہلے ہی شور مچا رہی ہے کہ ان کا ٹیرف اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ ان کے لیے اس میں کام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔اسلام آباد میں مقیم معاشی امور کے سینیئر صحافی شہباز رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان میں تین سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین مجموعی صارفین کی تعداد کا دو تہائی ہیں اور حکومت نے اس سال بجلی کے بلوں کی مد میں تین ہزار ارب اکٹھا کرنا ہے۔‘ اس کا مطلب ہے کہ تین سو یونٹس تک بجلی مفت کرنے پر دو ہزار ارب روپے دینے پڑیں گے۔مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے تین سو یونٹس تک بجلی دینے کے اعلانات کے بعد جب ان دونوں جماعتوں کے رہنماؤں سے بات کی گئی تو مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کی جانب سے وفاقی بجٹ سے اس کے قابل عمل ہونے کو مشکل قرار دیا گیا ہے۔مسلم لیگ نواز کے سیکریٹری جنرل اور سابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وفاقی حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں کہ وہ سبسڈی دے سکے تاہم صوبوں کی سطح پر دی جا سکتی ہے۔نواز لیگ کے سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ ’دو سو یونٹس تک بجلی مفت فراہم کرنے کی جو بات کی ہے اس کا طریقہ مختلف ہے اور یہ اصل میں سولرائزیشن کے ذریعے بجلی فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے۔‘ پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر تاج حیدر اپنی پارٹی قیادت کی جانب سے کیے جانے والے اعلانات کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ممکن ہے اور سندھ میں تھر کے علاقے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے سو یونٹ تک بجلی فراہم کی گئی تھی۔‘انھوں نے کہا کہ ’بلاول بھٹو نے جو اعلان کیا ہے اس میں سولر اور ونڈ اور تھر کے کوئلے کے ذریعے بجلی بنانے کی لاگت کو کافی کم کرنے کی بات کی گئی ہے کہ جب لاگت بہت کم ہو جائے گی اور یہ بجلی مقامی ایندھن سے پیدا ہو رہی ہو گی تو اس کا فائدہ کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو پہنچایا جا سکے گا۔‘

Back to top button