سخت موسم کے باعث K2 پر لاپتا کوہ پیماؤں کی تلاش تاحال ناکام

دنیا کی دوسری سب سے بلند چوٹی K-2 کو سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہونے والے تین کوہ پیماؤں کی تلاش کےلیے جاری آپریشن کو خراب موسم کی وجہ سے عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔
یہ آپریشن آج چوتھے روز میں داخل ہو چکا ہے تاہم منگل کی صبح ہی سے کے ٹو اور اس کے اطراف میں موسمی حالات انتہائی شدید ہیں جس کی وجہ سے آج ریسکیو آپریشن کا آغاز نہیں ہو سکا ہے۔ صحافی محمد زبیر کے مطابق لاپتہ کوہ پیما محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ اور ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے والے دیگر کوہ پیما الرٹ ہیں۔ پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جوان پابلو موہر جمعے کی شام سے لاپتہ ہیں۔ ان کی تلاش کےلیے کوششیں جاری ہیں جن میں تاحال کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ ریسکیو ٹیم کے مطابق آج موسم کے حالات بہتر ہونے پر لاپتہ کوہ پیماؤں کا سراغ لگانے کےلیے ڈرون کی مدد بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ روز ہونے والے ریسکیو آپریشن کے دوران کے ٹو کی چند تصاویر لی گئی تھیں۔ یہ تصاویر بظاہر سلیپنگ بیگ اور کیمپ کی ہیں۔ ان تصاویر سے ابھی جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ حقائق تک پہنچا جا سکے۔ اسکردو سے صحافی وزیر مظفر حسین نے آگاہ کیا ہے کہ کے ٹو اور اس کے اطراف چند مقامات پر برف باری کی اطلاعات ہیں جب کہ منگل کے روز دیگر علاقوں میں بھی برفباری کی پیشن گوئی ہے جس کی وجہ سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شاید آج کے روز ریسکیو آپریشن ممکن نا ہو پائے۔ امدادی سرگرمیوں کےلیے تیار بیٹھے کوہ پیماؤں کو بھی آگے بڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ وہ الرٹ رہیں جیسے ہی موسم ٹھیک ہوا تو امدادی سرگرمیاں شروع کی جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آج امدادی سر گرمیاں ہوتی ہیں تو ان میں محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ بھی شریک ہوں گے۔ گزشتہ دنوں میں ہونے والے ریسکیو آپریشن میں پاکستان آرمی کے دو ہیلی کاپٹروں پر مشتمل ریسکیو ٹیم نے حصہ لیا تھا۔ کوہ پیمائی کی گائیڈ کمپنی سیون سمٹ ٹریکس کے مینیجر داوا شرپا، جو کے ٹو بیس کیمپ پر موجود ہیں، نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ کے ذریعے آگاہ کیا تھا کہ پیر کے روز آرمی کے ہیلی کاپٹروں نے تقریباً 7000 میٹر کی بلندی تک پرواز کی تاکہ لاپتہ کوہ پیماؤں کا سراغ لگایا جا سکے۔ ان کے مطابق لکپا ڈینڈی اور انہوں نے ان علاقوں کا چکر لگایا تھا جن کے جغرافیے سے وہ آگاہ ہیں۔ داوا شرپا کے مطابق کے ٹو کی بالائی سطح بادلوں سے مکمل طور پر ڈھکی ہوئی تھی اور چوٹی پر حد نگاہ بہت کم تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین روز سے پاٹلٹس انتہائی غیرمعمولی کام کر رہے ہیں مگر اب تک ہم لاپتا کوہ پیماؤں کا سراغ نہیں لگا پائے ہیں۔ ریسکیو ٹیم موسم کے بہتر ہونے کا انتظار کر رہی ہے تاکہ کھوج کے کام کو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔ اس سے قبل اتوار کے روز بھی دو ہیلی کاپٹروں پر مشتمل ریسکیو آپریشن ناکام لوٹا تھا۔ ادھر ان کوہ پیماؤں میں شامل پاکستانی مہم جو محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے کہا تھا کہ ان کے والد اور ساتھی کوہ پیماؤں کو جو بھی حادثہ پیش آیا وہ چوٹی سر کرنے کے بعد ہی ہوا اور یہ کہ ان کی تلاش اور بچاؤ کی مہم کو اب ان کی لاشوں کی تلاش کی مہم کے طور پر جاری رکھنا چاہیے۔
واضح رہے کہ ساجد سدپارہ بھی اپنے والد کے ہمراہ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں شامل تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے باعث وہ مہم ادھوری چھوڑ کر واپس آ گئے تھے۔
اتوار کو اسکردو پہنچنے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ساجد سدپارہ نے کہا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ محمد علی سد پارہ اور ان کی ٹیم نے سردیوں میں K-2 فتح کرنے کا کارنامہ انجام دے دیا تھا اور ان کے ساتھ جو بھی حادثہ ہوا، وہ واپسی کے سفر میں ہوا ہے۔ ساجد سدپارہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ’انتہائی سرد موسم کے ساتھ آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر کسی انسان کے اتنے زیادہ وقت تک بچ جانے کے امکانات کم ہی ہیں تاہم لاش کی تلاش کےلیے ریسکیو آپریشن جاری رہنا چاہیے۔ اتوار کو ہونے والے ریسکیو آپریشن کے مطابق بتاتے ہوئے داوا شرپا نے کہا تھا کہ آرمی کے ہیلی کاپٹروں نے (جس میں وہ خود اور علی سدپارہ کے بیٹے ساجد بھی سوار تھے) اتوار کو تقریباً 7800 میٹر کی بلندی تک پرواز کی تاہم انہیں تینوں کوہ پیماؤں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا تھا۔ داوا شرپا کے مطابق انہوں نے ابروزی اور دوسرے تمام روٹس کا جائزہ لیا، کیمپ فور کے بعد انہیں دیکھنے میں مشکلات آئیں کیوں کہ 6400 میٹر پر ہوا کی رفتار 40 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔
یاد رہے اس قبل سنیچر کو آرمی ہیلی کاپٹر نے 7000 میٹر کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے کوہ پیماؤں کا سراغ لگانے کی کوشش کی تھی تاہم خراب موسمی حالات کے باعث ہیلی کاپٹر کو اسکردو لوٹنا پڑا تھا۔ الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق آرمی ایوی ایشن کے دو ہیلی کاپٹرز نے ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا تھا اور انہوں نے اس سرچ آپریشن میں محمد علی سدپارہ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے آٹھ کوہ پیما اور نیپال کے دو کوہ پیماؤں کے شریک ہونے کی اطلاع دی تھی۔ سنیچر کو محمد علی سد پارہ کے مینجر راؤ احمد نے صحافی زبیر احمد سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ جمعے سے ان کا تینوں کوہ پیماؤں سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے اور وہ ساری صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔
محمد علی سدپارہ، ان کے ساتھی کو پیما آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جے پی موہر کے قریبی عزیزوں اور ٹیم نے بتایا کہ تینوں نے جمعے کی شام تک آٹھ ہزار میٹر کا سنگ میل عبور کر لیا تھا جس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ وہ جلد ہی اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔ تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ رابطے کےلیے جان اسنوری کے پاس موجود ٹریکر کے علاوہ تینوں کے پاس موجود سیٹلائیٹ فون اور واکی ٹاکی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ رابطوں کےلیے جان اسنوری اپنے پاس موجود ٹریکر ہر ایک گھنٹے بعد آن کرکے اطلاع فراہم کر دیتے تھے۔ انہوں نے جمعہ کے روز آخری مرتبہ اپنی موجودگی کی اطلاع چار بجے فراہم کی تھی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ نیپالی مہم جووں کی جانب سے کے ٹو کو سردیوں میں تاریخ میں پہلی مرتبہ فتح کرنے کے بعد محمد علی سد پارہ اور دو ساتھیوں نے اپنی مہم جاری رکھی تھی۔ اس مہم کے دوران جمعہ کے روز موسم بہتر ہونے کی بنا پر تینوں آگے بڑھے تھے۔ تاہم الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق جمعہ کے روز دوپہر کے وقت اچانک کے ٹو پر تیز ہواہیں چلنا شروع ہو گئیں تھیں۔ محمد علی سد پارہ اور ساجد علی پارہ باپ بیٹا ہیں جن کا تعلق گلگت بلتستان میں اسکردو کے علاقے سد پارہ سے ہے۔ سد پارہ کا علاقہ مہم جوؤں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ محمد علی سد پارہ کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جنہوں نے 2016 میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی مرتبہ نانگا پربت کو سر کیا تھا۔ محمد علی سد پارہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے آٹھ ہزار میٹر کی آٹھ چوٹیاں فتح کرنے کے علاوہ ایک سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں سر کی ہیں۔ ان کے بیٹے ساجد علی سد پارہ کو کے ٹو فتح کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ساجد علی سد پارہ نے کوہ پیمائی کی تربیت اپنے والد ہی سے حاصل کی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button