کرتار پور راہداری: انڈیا اور بھارت کے درمیان ایک جزیرہ

کرتار پور راہداری انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک ایسے جزیرے جیسے ہے جہاں لوگ کچھ دیر کے لیے اپنے تمام تر مسائل اور سرحدوں کا خیال چھوڑ کر صرف ایک دوسرے کی سننے آتے ہیں، کچھ گھنٹے وہاں گزارنے کے بعد وہ اپنی اپنی سرحدوں کو واپس لے جاتے ہیں۔ کرتارپور دربار میں انڈین اور پاکستانی سِکھ ایک دوسرے سے مل کر نکال ہوتے ہیں۔ لیکن یہ جگہ صرف سِکھ برادری کے لیے ہی نہیں بلکہ دیگر عقائد سے تعلق رکھنے والے ان تمام لوگوں کے لیے بھی ملنے کا ذریعہ بن چکی ہے جو ویزا لگوا کر انڈیا نہیں جا سکتے۔
سِکھ مذہب یا فلسفے کی اگر بات کریں تو اس کا آغاز 15 ویں صدی میں انڈین برصغیر کے پنجاب میں ہوا تھا جہاں آج بھی سِکھ برادری کی سب سے بڑی آبادی رہتی ہے۔ سکھ روایت کے مطابق اس مذہب کی بنیاد گُرو نانک نے رکھی تھی جن کے بعد اسی سلسلے میں نو اور گُرو آئے۔ سکھ برادری کا ماننا ہے کہ یہ 10 انسان بے شک مختلف جسم رکھتے تھے لیکن ان کی روح ایک ہی تھی، جس کے تحت انھوں نے مذہب میں بھی ایک ہونے کا سبق دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گرو نانک نے 1504 میں کھیتی باڑی کر کے اور لنگر بانٹ کر کرتارپور کا شہر آباد کیا تھا جہاں وہ 18 سال رہے۔
گرو نانک ستمبر 1539 میں اپنی وفات تک کرتارپور میں ہی رہے۔ اور سِکھ مانتے ہیں کہ کرتارپور صاحب دربار کی بنیاد اسی جگہ رکھی گئی ہے جہاں گرونانک کا انتقال ہوا تھا۔ کرتارپور کو انڈین پنجاب میں کرتارپور راوی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انڈیا کے شہر جالندھر میں ایک قصبے کا نام بھی کرتارپور ہے۔ تو کسی قسم کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے یہ نام استعمال کیا جاتا ہے۔
انڈین پنجاب میں کہا جاتا ہے کہ تقسیمِ ہند دراصل تقسیمِ پنجاب اور بنگال تھی۔ اور مؤرخین اور ماہرین کا خیال ہے کہ اسی لیے دونوں ملکوں میں بٹے ہوئے پنجاب میں اپنے ہمسایوں سے ملنے کی خواہش زیادہ ہے۔ بٹوارے کے بعد کسی بچھڑے ہوئے خاندان کے جذبات کا اندازہ لگانا خاصا مشکل کام ہے۔ یہ صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جن کے خاندانوں نے، پرکھوں نے تقسیم سہی ہے۔ نومبر 2019 میں باقاعدہ طور پر کھلنے سے پہلے یہ جگہ ویران تھی۔ یہاں پر لاہور کے ایک پرائمری سکول ٹیچر اقبال قیصر پہلی مرتبہ 1980 کی دہائی میں آئے تھے۔ اُنھوں نے کرتاپور کا دورہ کرنے کے بعد مختلف گرودواروں پر ایک کتاب لکھنے کا کام شروع کر دیا۔ اقبال قیصر نے بتایا کہ 1947 میں ان کا گھرانہ انڈین پنجاب کے ضلع فیروزپور سے ہجرت کر کے قصور پہنچا تھا۔ ’میری پیدائش اس کے 10 سال بعد قصور میں ہوئی۔ میرا پورا خاندان زراعت کے پیشے سے جڑا تھا اور ان میں زیادہ تر نے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔
ان کے مطابق ان کے والدین نے بتایا تھا کہ پاکستان کی طرف ہجرت کرتے ہوئے ان کے قافلے پر حملہ ہوا تھا جس میں ان کی پھپھو زینب بری طرح زخمی ہوئی تھیں۔ ان کا پیٹ چاک کیا گیا تھا، اس حملے میں میرے والد کی انگلی کٹ گئی تھی جس پر اس وقت لوگوں نے کپڑا باندھ کر انھیں چلتے رہنے کو کہا۔ قصور میں مہاجرین کے کیمپ میں داخل ہوتے ہی میری پھپھو کا انتقال ہو گیا۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی دادی کے کزن بٹوارے کے دوران انڈیا میں رہ گئے۔ ’آج بھی ان کی اولاد انڈیا میں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وقت کے ساتھ چیزیں بدل جاتی ہیں۔ ہم سب کچھ بدل سکتے ہیں اپنے ہمسائے نہیں بدل سکتے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جب بھی جنگ ہوئی یا ہو گی تو کسی اور کو کچھ نہیں ہو گا لیکن دونوں جانب پنجاب مارا جائے گا۔
پاکستان میں دربار صاحب کرتارپور کو سِکھ برادری کے لیے کھولنے کے کئی حامی رہے ہیں۔ اقبال قیصر نے بتایا کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں دربار صاحب کرتارپور کے لیے خاص طور سے کمیٹی بنائی گئی تھی۔ جس کو بعد میں پربندھک کمیٹی کا نام بھی دیا گیا تھا۔ اسی طرح مصنف اشفاق احمد کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ سِکھ برادری کے لیے کرتارپور صاحب دربار کھولنے کے حامی رہے اور پاکستان میں بننے والی حکومتوں پر زور ڈالتے رہے کہ ان کے لیے خاص رعایت کی جائے۔
آج بھی جو یاتری یہاں آتے ہیں ان کے بارے میں پربندھک کمیٹی کو بتایا جاتا ہے۔ یہاں آئے چند یاتریوں کو یہ خوف بھی تھا کہ ان کے انڈین پاسپورٹ پر پاکستان کا انٹری سٹامپ لگنے سے انھیں پھر برطانیہ اور امریکہ کا ویزا نہیں ملے گا۔ لیکن کرتارپور آنے کے لیے الیکٹرانک ٹریول پاس ملتا ہے جس کے نتیجے میں انڈین شہری چھ مہینے بعد پھر پاکستان آ سکتے ہیں اور پاکستانی جب چاہیں یہاں آ سکتے ہیں۔