کوئٹہ کے 4 پہاڑوں سے جڑی معروف کہانیاں کونسی ہیں؟

پاکستان کے پانچویں بڑے شہر کوئٹہ کے پہاڑی سلسلے اپنے اندر الگ داستانیں سموئے ہوئے ہیں جبکہ اسی مناسبت سے ان کے نام بھی رکھے گئے ہیں، وادی کوئٹہ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان 4 پہاڑوں میں موجود ایک بیضوی شکل کا شہر ہے، ان پہاڑوں میں کوہ چلتن، کوہ تکاتو، کوہ زرغون اور کوہ مردار شامل ہیں۔بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پشتون، بلوچ، براہوی، فارسی، پنجابی اور سندھی سمیت مختلف زبانوں کے بولنے والے لوگ آباد ہیں، کوئٹہ کی تاریخ 11ویں صدی سے ملتی ہے جب سلطان محمود غزنوی نے جنوبی ایشیا پر اپنے ایک حملے کے دوران اس پر قبضہ کیا تھا، اس دور سے یہ شہر تاریخ کی کتب میں موجود ہے۔1543 میں مغل بادشاہ ہمایوں نے صفوید فارس کی واپسی پر کوئٹہ میں آرام کیا، اپنے ایک سالہ بیٹے اکبر کو 2 سال بعد واپس آنے تک شہر میں چھوڑ دیا جس کے بعد تاریخ کے مختلف دریچوں سے ہوتا یہ شہر سطح سمندر سے ساڑھے 5 ہزار فٹ کی بلندی پر اپنی آب و تاب سے آباد ہے، کوئٹہ کو جہاں دنیا بھر میں لٹل پیرس کے نام سے شہرت ملی وہیں یہاں موجود 4 پہاڑ بھی اس شہر کی شہرت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔وادی کوئٹہ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان 4 پہاڑوں میں موجود ایک بیضوی شکل کا شہر ہے، ان پہاڑوں میں کوہ چلتن، کوہ تکاتو، کوہ زرغون اور کوہ مردار شامل ہیں۔ ان سے ماضی کی کئی داستانیں بھی جڑی ہوئی ہیں، شہر کی قدیم داستانوں میں کوہ چلتن سے ایک کہانی منسوب ہے جس میں اس پہاڑ پر ایک خاندان آباد تھا جس کی کوئی اولاد نہ تھی اس دوران اس پہاڑ سے گزرنے والے ایک فقیر نے اس خاندان کو دعا اور پہاڑ کی 40 کنکریاں اُٹھا کر دیں جس کے بعد اس خاندان میں 40 بیٹے پیدا ہوئے بعد ازاں اس خاندان کے ان 40 بچوں نے ایک بزرگ کے ساتھ بدسلوکی کی جس پر اس بزرگ نے انہیں بد دعا دی جس سے 40 کے 40 بھائی کچھ ہی عرصے میں انتقال کر گئے اور اسی پہاڑ میں دفن ہوئے جس کے بعد اس پہاڑ کا نام چلتن پڑ گیا۔اسی طرح کوہ مردار سے متعلق بھی مختلف لوک داستانیں موجود ہیں۔ اس پہاڑ کے نام کے پیچھے کی روایت یہ ہے کہ کسی دور میں اس پہاڑی سلسلے سے آتش فشاں کا دھواں نکلا کرتا تھا جو ایک طویل عرصے تک جاری رہا لیکن پھر خود بخود دھواں نکلنا بند ہو گیا جس کے بعد یہاں کے افراد نے اس پہاڑ کا نام مردار یعنی جو مر گیا ہو رکھ دیا اور یوں اس پہاڑی سلسلے کو کوہ مردار کہا جاتا ہے۔کوہ زرغون کوہ زرغون اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ پہاڑ ہمیشہ سے سر سبز و شاداب رہا ہے جبکہ اس پہاڑ پر مختلف اقسام کے پھول بھی اُگا کرتے ہیں جس کی وجہ سے اسے پشتو زبان کے لفظ زرغون جس کے معنی سبز کے ہیں پر رکھا گیا، کوہ تکاتو پر جانوروں کی چراگاہ کی وجہ سے اسے تکاتو کہا جاتا ہے، وادی کوئٹہ کے اطراف میں موجود یہ تمام پہاڑ سنگلاخ ہیں جن پر بڑے بڑے درختوں کا پروان چڑھنا ممکن نہیں جبکہ پہاڑوں پر کئی جڑی بوٹیاں اُگتی ہیں جو ماضی میں ادویات میں استعمال کی جاتی تھیں۔