کیا اپوزیشن ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو پچھاڑ لے گی؟

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے 18 جون کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک تو لائی جا رہی یے لیکن اسکی کامیابی کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں جسکی بنیادی وجہ اپوزیشن کا آپسی نفاق ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قاسم سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاکر اپوزیشن جماعتوں نے ایک بڑا رسک لیا ہے کیوں کہ اس تحریک کی ناکامی کی صورت میں اپوزیشن اور زیادہ کمزور ہو گی اور اس کی ساکھ مذید خراب ہو جائے گی۔ یہ بھی کہا جا رہانہے کہ تحریک عدم اعتماد شہباز شریف اور بلاول بھٹو کی بڑھتی ہوئی قربت کا بھی امتحان ہے۔ اس تحریک پر ووٹنگ جمعہ 18 جون کو ہوگی۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سے پہلے قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے وفاقی حکومت کو تب شکست دے دی تھی جب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد کی نشست پر سینیٹ کے الیکشن میں حکمران اتحاد کے امیدوار مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو ہر کر وزیراعظم عمران خان کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ بغاوت یا بے وفائی جب اندر سے ہو تو مسئلہ زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ حفیظ شیخ کے معاملے میں کچھ ایسا ہی ہوا تھا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ حکمران جماعت کے کن لوگوں نے اپنے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا، عمران خان انکے خلاف کارروائی کرنے کی کوئی مثال نہ قائم کر سکے کیونکہ ایسا۔کرنے سے انکی حکومت جا سکتی تھی۔
اب ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر دیکھنا صرف یہ ہے کہ کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں دوریاں بڑھ رہی ہیں؟ مظہر عباس کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی کامیابی شہباز اور بلاول کو قریب لا سکتی ہے، اور اس کی ناکامی پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن کے اتحاد کو مذید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ گیلانی کی جیت کے بعد بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں شاید اپوزیشن نے جلد بازی کی ہے۔ یہ تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس تحریک کے دوران کون ایم این اے کس کو سرپرائز دے سکتا ہے مگر بظاہر عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان کئی ماہ سے چلنے والی کشیدگی اور معاملات خاموشی اور خوش اسلوبی سے طے پا رہے ہیں گو کہ پی ٹی آئی میں ترین کے سب سے بڑے سیاسی مخالف شاہ محمود قریشی بار بار کہہ رہے ہیں کہ ترین کو کوئی رعایت نہیں دی جا رہی، شواہد کہتے ہیں کہ شوگر سکینڈل کی تحقیقات کرنے والے ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا کی ٹرانسفر کے بعد با اثر ترین ثابت ہونے والے جہانگیر ترین کے خلاف کوئی بڑا فیصلہ آنے والا نہیں ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سوری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک شہباز شریف کے اس بیانیہ کا بھی امتحان ہوگا جس میں سڑکوں کی سیاست کے بجائے ایوانوں میں حکومت کو ’ٹف ٹائم‘ دے کر مشکل میں ڈالنا زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے یہاں پر کامیابی کے بعد دوسرا ہدف ’پنجاب‘ ہو۔
دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شہباز کے نیب کی حراست سے باہر آنے اور سیاسی طور پر متحرک ہونے کے بعد ایک بار پھر نواز شریف اور مریم نواز نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ شاید وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اب اپوزیشن کو ایوان کے اندر کس حد تک کامیابی مل سکتی ہے۔ دوسری جانب انفرادی طور پر مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دونوں نے حالیہ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو شکست دے کر ایک نفسیاتی برتری تو قائم کی ہوئی ہے۔ چنانچہ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں کامیابی اپوزیشن کے بیانیے میں نئی روح ہھونک سکتی ہے کہ 2023 کے الیکشن تک لڑائی پارلیمینٹ کے اندر ہی لڑیں تاکہ جمہوریت کا پہیہ چلتا رہے۔ لیکن اس تحریک کی شکست کی صورت میں اپوزیشن کی ناکامیوں کا سلسلہ کامیابی کے ساتھ جاری رہے گا۔