کیا نواز شریف کیلئے انتخابی سیاست کے دروازے کھل گئے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو سنائی گئی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے اُنہیں بری کر دیا ہے جس کے بعد اُن کے حامی پراُمید ہیں کہ اب نواز شریف کی انتخابی سیاست میں واپسی کے دروازے کھل گئے ہیں۔ تاہم بعض قانونی ماہر کہتے ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم کے لیے اب بھی مشکلات برقرار ہیں۔

خیال رہے کہ نواز شریف کی مشکلات میں اُس وقت اضافہ ہوا تھا جب 2017 میں سپریم کورٹ نے پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا۔ بعدازاں 2018 میں ایون فیلڈ کیس میں اُنہیں 10 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

لیکن رواں سال 21 اکتوبر کو نواز شریف کی پاکستان واپسی کے بعد سے لے کر اب تک اُن کی مشکلات میں بتدریج کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ایسے میں یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ چار برس قبل تک مقدمات میں گھرے، پارٹی صدارت کھونے اور قید میں رہنے والے نواز شریف کی تمام مشکلات کیا واقعی ختم ہو گئی ہیں؟ یا اب بھی کوئی رکاوٹ باقی ہے؟ یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا نواز شریف کی تاحیات نااہلی بھی اب ختم ہو سکتی ہے؟

قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں بریت کے بعد اب العزیزیہ ریفرنس اور سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نااہلی کا معاملہ ہی نواز شریف کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

سینئر قانون دان ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں کہ جب بھی سیاسی معاملات عدالتوں کے ذریعے ‘سیٹل’ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ حل نہیں ہوتے، لیکن عدلیہ کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ جس وقت نواز شریف کو سزائیں سنائی گئیں تو اُس وقت جج اور تھے جبکہ اب دوسرے جج ہیں۔ لہذٰا کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہے کہ نواز شریف کے ساتھ آگے کیا ہو گا۔

سینئر قانون دان اور نواز شریف کے دور میں اٹارنی جنرل رہنے والے اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے پاس نواز شریف کے خلاف کیس ثابت کرنے کے لیے کوئی مواد نہیں تھا۔اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ نہ صرف نواز شریف بلکہ اُن کے اہلِ خانہ کے خلاف کیسز بھی بدنیتی پر مبنی تھے۔اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ایک طرح سے نواز شریف کے خلاف کیسز کی خود ہی تحقیقات شروع کر دی تھیں جس کا اُن کے پاس اختیار نہیں تھا۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ آنے کے بعد دائر کیے گئے ریفرنسز میں سے ایک ریفرنس العزیزیہ اسٹیل مل کے حوالے سے بھی تھا جس میں نواز شریف کو احتساب عدالت نے سات سال قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، ان کے نام تمام جائیداد ضبط اور تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

ایڈووکیٹ اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس ملتے جلتے ہی تھے۔ پاناما لیکس سامنے آنے پر جب نواز شریف کے خلاف کیسز بنائے گئے تو ان میں یہ نیب ریفرنس بھی شامل تھا۔ لہذٰا العزیزیہ ریفرنس کا انجام بھی وہی ہو گا جو ایون فیلڈ کا ہوا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما لیکس کیس میں اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد وہ وزارتِ عظمی سے بھی محروم ہو گئے تھے۔ اس فیصلے کے بعد نواز شریف پارٹی صدارت کے لیے بھی نااہل ہو گئے تھے۔

خالد رانجھا کہتے ہیں کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اب بھی موجود ہے۔ لہذٰا جب تک عدالتِ عظمیٰ اس پر کوئی دوسرا فیصلہ نہیں کرتی، نواز شریف کی تاحیات نااہلی بھی برقرار رہے گی۔ لہذٰا اُن کے الیکشن لڑنے کی راہ میں رکاوٹ موجود رہے گی۔اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا معاملہ ایک بار پھر عدالتِ عظمی میں ہی جائے گا اور شاید پھر بھی حل نہ ہو۔ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملا تو پھر مسلم لیگ (ن) کے لیے میدان خالی نہیں رہے گا اور نواز شریف کے لیے بھی مشکلات برقرار رہیں گی۔

تاہم دوسری جانب سینئر وکیل اشتر اوصاف کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے جب دائمی نااہلی کا فیصلہ سنایا تو اس وقت تک پارلیمنٹ نے نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا تھا۔ جب پارلیمنٹ نے اس قانون کا جائزہ لیا اور نااہلی کی مدت پانچ برس کر دی تو پھر نہ صرف نواز شریف بلکہ جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی بھی ختم ہو گئی۔

خیال رہے کہ رواں برس پارلیمان نے اراکینِ اسمبلی کی نااہلی کی مدت پانچ برس کرنے کا بل منظور کر لیا تھا۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے اسے ‘مخصوص شخصیات’ کے لیے کی جانے والی قانون سازی قرار دیا تھا۔

Back to top button