تحریک طالبان کا مرنے والا ترجمان موجودہ نہیں، سابقہ ہے

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی کی موت کے حوالے سے خبروں کی صداقت تب مشکوک ہو گئی جب ٹی ٹی پی نے یہ اعلان کیا کہ اسکے ترجمان محمد خراسانی زندہ ہیں لیکن تنظیم کے ایک سابق ترجمان محمد خالد بلتی عرف خالد خراسانی کے حوالے سے معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں کہ کیا وہ مارے گئے ہیں یا زندہ ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کے موجودہ ترجمان محمد خراسانی زندہ ہیں البتہ مفتی خالد بلتی کے بارے میں ہماری تحقیق جاری ہے، جیسے ہی کنفرم معلومات حاصل ہو جائے نشر کر دیں گے۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ خالد بلتی کے پاس فی الحال تحریک میں کوئی خاص ذمہ داری نہیں تھی۔

واضح رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ ترجمان محمد خراسانی کے نام سے جانے جاتے ہیں تاہم ہلاکت کی خبریں ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان محمد خالد بلتی عرف محمد خالد خراسانی سے متعلق ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی اس بارے خبریں گردش کر رہی ہیں تاہم ان کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی۔ ادھر افغان طالبان کے ترجمان نے ان خبروں کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ ان کے ملک میں پیش نہیں آیا ہے۔ افغانستان کے محکمہ اطلاعات کے ایک ترجمان بلال کریمی نے بتایا کہ اس میں کوئی صداقت نہیں ہے، ہم اس کو مسترد کرتے ہیں ہمارے ملک میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔‘

دوسری جانب پاکستان میں سکیورٹی ذرائع کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کے سابق مرکزی ترجمان محمد خالد بلتی افغانستان کے ننگرہار صوبے میں قتل کر دیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان کا اپنا نام خالد بلتی تھا اور وہ پاکستان میں آپریشن ضرب عضب کے دوران افغانستان فرار ہو گئے تھے اور وہ متعدد واقعات کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے۔

کالعدم ٹی ٹی پی کا ترجمان محمد خراسانی مارا گیا

کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے سابق کمانڈر محمد خالد بلتی کا تعلق گلگت بلتستان سے بتایا جاتا ہے۔ وہ جس دور میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان تھے اس وقت انھیں محمد خالد خراسانی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان شاہد اللہ شاہد کے بعد محمد خالد بلتی عرف محمد خالد خراسانی کو تنظیم کا ترجمان نامزد کیا گیا تھا۔ شاہد اللہ شاہد نے چند دیگر ساتھیوں کے ہمراہ داعش میں شمولیت اختیار کر لی تھی پھر بعد میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ محمد خالد بلتی نے دینی تعلیم کراچی کے مدرسے میں حاصل کی اور پھر طالبان کی میڈیا شاخ ’عمر میڈیا‘ میں کام کرتے رہے اس لیے انھیں میڈیا سے تعلقات اور نشر و اشاعت کے کام سے واقفیت تھی۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ یہ عہدہ حاصل کرنے کے بعد وہ شمالی وزیرستان منتقل ہو گئے تھے اور جب شمالی وزیرستان میں سال 2014 میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا تو محمد خالد بلتی عرف خالد خراسانی افغانستان فرار ہوگئے تھے۔ مقامی ذرائع نے بتایا کہ افغانستان سے بھی محمد خالد بلتی نے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی اور وہاں متحرک رہے تھے۔ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی کے دور میں ننگر ہار میں آپریشن کے دوران محمد خالد بلتی کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور انھیں باگرام جیل میں رکھا گیا تھا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ افغان طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد جب جیلوں کے دروازے کھول دیے گئے تھے اس دوران وہ جیل سے باہر آگئے تھے۔ رہائی کے بعد وہ ننگرہار صوبے میں آ گئے تھے اور انھیں امید تھی کہ شاید انھیں دوبارہ تنظیم میں کوئی عہدہ مل جائے لیکن چونکہ ان ہی کے نام یعنی محمد خراسانی کے نام سے ایک ترجمان ان دنوں تنظیم کے لیے کام کر رہے ہیں اس لیے انھیں کسی عہدے کی پیشکش نہیں کی گئی تھی۔

Back to top button