پی ٹی آئی کے منتخب اراکین اسمبلی پر نااہلی کی تلوار لٹک گئی


وفاقی حکومت کی جانب سے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف کے خلاف پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت کارروائی کرنے اور ڈیکلیریشن سپریم کورٹ بھجوانے کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے منتخب اراکین کے سروں پر نا اہلی کی تلوار لٹک گئی ہے۔ وفاقی کابینہ نے ممنوعہ فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کا تفصلی جائزہ لینے کے بعد پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے آرٹیکل 2، 6 ،15 اور17 کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کے مطابق تحریک انصاف غیرملکی امداد لینے والی جماعت قرار پائی ہے لہذا اس پر پابندی عائد کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا گیا ہے۔

آئینی ماہرین کے مطابق قانون کے تحت اگر سپریم کورٹ حکومتی ڈیکلیریشن کو تسلیم کر لیتی ہے تو تحریک انصاف پر پابندی عائد ہو جائے گی جس کے نتیجے میں اس کے تمام منتخب اراکین اسمبلی بھی نااہل قرار دے دیئے جائیں گے۔ لیکن جب حکومتی ڈیکلیریشن سپریم کورٹ میں جائے گا تو پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے پاس عدالتی فیصلے سے قبل یہ مہلت ہو گی کہ وہ اپنی جماعت سے استعفٰی دے دیں، ورنہ سپریم کورٹ سے پارٹی تحلیل ہونے کی صورت میں اس کے تمام اراکین اسمبلی چار سال کے لیے نااہل ہو جائیں گے اور اگلے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے 123 ممبران قومی اسمبلی پہلے ہی اپنے استعفے پیش کر چکے ہیں لیکن ان میں سے اب تک صرف 11 اراکین کے استعفے قبول کئے گئےہیں ۔ جب تک اسپیکر باقی اراکین کے استعفے قبول نہیں کرتا انہیں ممبران اسمبلی ہی تصور کیا جائے گا۔ دوسری جانب خیبر پختون خوا اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومتیں ہونے کے علاوہ بلوچستان اور سندھ اسمبلی میں بھی اس کے درجنوں اراکین موجود ہیں جن کے سروں پر نااہلی کی تلوار لٹک جائے گی۔ ایسے میں آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنی ممکنہ نااہلی سے بچنے کے لیے پی ٹی آئی کے ارکان پر پریشر پڑجائے گا اور وہ سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے سے پہلے مستعفی بھی ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو دیے گئے اپنے ڈیکلیریشن میں پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کی چار دفعات (2، 6 ،15 اور17) کا حوالہ دیا ہے جن کے تحت پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس قانون کے آرٹیکل 2 کا تعلق بیرون ملک سے مالی مدد لینے والی سیاسی جماعت کی تعریف سے ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ فارن ایڈڈ سیاسی جماعت سے مراد وہ جماعت ہے جسے بیرون ملک کسی حکومت یا جماعت کی مدد سے بنایا گیا ہو یا پھر اسے بیرون ملک سے مالی مدد ملتی ہو۔ 2002 کے قانون کی دفعہ 6 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو کسی بھی غیرملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا نجی کمپنی، فرم یا پیشہ ورانہ ایسوسی ایشن سے فنڈنگ ممنوع ہو گی اور ممنوعہ فنڈنگ کو بحق سرکار ضبط کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس 2002 غیر ملکی امداد لینے والے سیاسی جماعت کی تحلیل کا طریق کار آرٹیکل 15 میں بیان کرتا ہے۔ اس کے مطابق اگر وفاقی حکومت اس بات سے مطمئن ہے کہ کوئی سیاسی جماعت غیر ملکی امداد یافتہ ہے یا پاکستان کی خودمختاری یا سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہے یا دہشت گردی میں ملوث ہے تو حکومت سرکاری گزٹ میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے اس کا اعلان یعنی ڈیکلریشن جاری کرے گی۔اسی آرٹیکل کے مطابق ڈیکلیریشن یا اعلان کے 15 دن کے اندر اندر وفاقی حکومت اس معاملے کو سپریم کورٹ میں بھیجے گی جو سیاسی جماعت کے مستقبل کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرے گی۔ اگر سپریم کورٹ حکومتی ڈیکلیریشن برقرار رکھتی ہے تو پھر متعلقہ سیاسی جماعت فوری طور پر تحلیل ہو جائے گی۔ ایسے میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کا مستقبل سپریم کورٹ کے فیصلے سے وابستہ ہے کیونکہ اگر سپریم کورٹ حکومتی ڈیکلیریشن کو برقرار رکھتی ہے تو تحریک انصاف تحلیل ہو جائے گی اور اس کے تمام اراکین اسمبلی اپنی رکنیت ختم ہونے کے علاوہ چار برس کے لیے نااہل بھی ہو جائیں گے۔ لہٰذا اب یہ انکا فیصلہ ہو گا کہ وہ عدالتی فیصلے سے پہلے استعفٰی دیں یا پھر چار سال نااہلی بھگتیں۔

موجودہ قانون کے مطابق جب حکومتی ڈیکلیریشن سپریم کورٹ میں چلا جائے تو متعلقہ جماعت کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے پاس فیصلے سے قبل یہ مہلت ہوتی ہے کہ وہ اپنی جماعت سے استعفٰی دے دیں اور دوبارہ الیکشن لڑ کر اسمبلی میں آ جائیں، حکومتی ڈیکلیریشن فائل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی ڈیڈ لائن تو نہیں ہے مگر اس اہم معاملے پر توقع یہی ہے کہ سپریم کورٹ جلد از جلد فیصلہ دے گی۔

یاد رہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت چند ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے۔ ایسے میں اگر اس کے 9 یا اس سے زائد ارکان مستعفی ہو جائیں تو مسلم لیگ ن ایک بار پھر صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی۔

Back to top button