عمرانڈو بلوائیوں کے ساتھ جیلوں سے 88 لاکھ قیدی بھی رہا ہوں گے؟

سینئر سیاسی تجزیہ کار اور مسلم لیگ نون کو سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عمران خان کو  آج بھی یقین ہے کہ کسی آن ایک بھونچال آئے گا اور انہیں اچھال کر زمان پارک سے وزیراعظم ہائوس لا بٹھائے گا۔ 9 مئی کی بغاوت کا مقصد بھی اسی بھونچال کو حرکت میں لانا تھا اگر ان سنگین جرائم کو انسانی حقوق کی  خوش رنگ قبا پہنانے جیسی حماقت کی گئی  تو ملک بھر کی ایک سو سولہ جیلوں میں بند 88 لاکھ قیدیوں کو بھی رہا کر دینا ہوگا کہ اُن میں سے کسی قیدی کا جرم، 9 اور 10مئی کے جرائم سے زیادہ سنگین نہیں ہے۔

اپنے ایک کالم میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ہمارے 9مئی کی امریکہ کے نائن الیون سے کوئی مشابہت ہے یا نہیں مگر یہ ٹھیک ایک صدی قبل جرمنی کے نازی لیڈر، ایڈولف ہٹلر کی ’’شراب خانہ بغاوت‘‘  سے کمال درجے کی مماثلت ضرور رکھتا ہے۔ وہی سیاسی عدم استحکام، وہی اقتصادی بدحالی، وہی ایک شوریدہ سر لیڈر، اُس کے باغیانہ بانکپن پر فریفتہ ویسے ہی اندھے، گونگے، بہرے مقلدّین،  تاریخ کے جھوٹے ترین انسان گوئبلز کے معجزہ فن کا شاہکار وہی فریب کارانہ بیانیہ سازی اور وہی کھوکھلے نعرے، پہلی جنگ عظیم میں زخمی ہوکر ہسپتال پہنچنے والا ایڈولف ہٹلر، صحت یاب ہوکر میونخ پہنچا تو اس کے دِل ودماغ میں تمنا کا پھول کھِل چکا تھا۔ اپنی شعلہ بیانی کے باعث وہ 1920میں قائم ہونے والی نازی پارٹی کا سرکردہ لیڈر بن گیا۔ تین سال بعد اس نے جرمن حکومت گرانے اور نازی پارٹی کا تسلّط جمانے کا منصوبہ بنایا۔ دوہزار سر بہ کف انقلابی تیار کئے گئے۔

منصوبے کا آغاز 8نومبر1923کو میونخ کے ایک بڑے روایتی شراب خانے سے ہوا جہاں ہٹلر کے باغیانہ خطاب نے ہزاروں لوگوں پہ سحر طاری کردیا۔ انقلابی جتھے شراب خانے سے نکلے تو مسلح پولیس سے سامنا ہوا۔ پہلی ہی جھڑپ میں سولہ انقلابی ہلاک ہوگئے۔ ہٹلر زخمی ہوا۔ دو دِن روپوش رہنے کے بعد پکڑا گیا۔ بغاوت کا مقدمہ چلا۔ وہ ہر روز عدالت میں آگ اُگلتا۔ اُس کے عشّاق کی تعداد بڑھتی گئی۔ عدلیہ کے بعض ججوں کے دلوں میں بھی ہٹلر کا عشق سلگنے لگا۔ اُسے بغاوت جیسے سنگین جرم میں بھی صرف پانچ سال قید کی سزا ہوئی۔ ایک جج نے فیصلے میں لکھا ۔ ’’بغاوت کے حوالے سے متعلقہ قوانین کا اطلاق کسی ایسے شخص پر نہیں ہونا چاہئے جس کے جذبات واحساسات ایک محبّ وطن جرمن شہری جیسے ہوں۔ جس کی سوچ ایک سچے جرمن جیسی ہو۔ جیسا کہ ایڈولف ہٹلر کی ہے۔‘‘ ابھی صرف نوماہ ہی گزرے تھے کہ نیک چلنی اور اچھے روّیے کی بنیاد پرہٹلر کو رہائی کا پروانہ مل گیا۔

                                                                                                                                       عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ جرمنی میں ’’صادق ‘‘اور’’ امین‘‘ قرار دئیے جانے والا کوئی قانون نہیں تھا ورنہ عدلیہ بصد مسرّت اُسے یہ القابات بھی عطا کردیتی۔ بغاوت جیسے سنگین جرم میں  پولیس لائنز اسلام آباد کے آراستہ پیراستہ بنگلے جیسی صرف نو ماہ کی پُر آسائش قید کے بعد ہٹلر نے مروجہ سیاسی راستہ اختیار کرنے کی حکمتِ عملی اپنائی لیکن اس کے سارے تیور ایک انا پرست، شوریدہ سر اور آمادۂِ بغاوت فتنہ پرور جیسے ہی رہے۔ اُسے گوئبلز (GOEBBELS) جیسا ساتھی میسّر آگیا جو بے سروپا الزامات اور جھوٹ پر مبنی فریب کارانہ بیانیہ تراشنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ 1933کے انتخابات میں ہٹلر کی خطیبانہ حشرسامانیوں اور گوئبلز کے جذبات انگیز بیانیوں نے رنگ دکھایا۔ ایڈولف ہٹلر جرمنی کا چانسلر بن گیا ۔ چھ برس بعد ہی اس کی توسیع پسندی نے دوسری جنگ عظیم کی آگ بھڑکائی جو چھ سال تک بھڑکتی رہی۔ ہٹلر ہار گیا۔ گوئبلز کو اپنا جانشیں نامزد کیا اور ایک تہہ خانے میں اپنی محبوبہ کے ہمراہ خودکشی کرلی۔ تاریخ کا سب سے بڑا دروغ گو اور بیانیہ ساز گوئبلز صرف ایک دِن جرمنی کا حکمراں رہا۔ ہٹلر کی خود کشی کے اگلے دِن گوئبلز اور اس کی بیوی نے اپنے اکلوتے بیٹے اور پانچ بیٹیوں کو زہر دے کر ہلاک کردیا اور پھر دونوں نے خود کشی کرلی۔

     عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ جرمن مورخین کے تجزیوں کے مطابق  اگر نومبر 1923کی ’’شراب خانہ بغاوت‘‘ کو واقعی ملکی دستور کے مطابق ایک سنگین جرم کے طورپر دیکھا جاتا، ہٹلر اور باغی اپنے جرم کے مطابق سزا پاتے تو نہ کبھی نازی جرمنی وجود میں آتا، نہ دنیا دوسری جنگِ عظیم کے آزار سے دوچار ہوتی ، نہ چھ کروڑ انسان ایک خودسر شخص کی بپھری ہوئی انا اور پراگندہ فکری کی بھینٹ چڑھتے۔ بحث وفکر کا حاصل یہ ہے کہ ’’شراب خانہ بغاوت‘‘ ہٹلر اور نازی پارٹی کا نہایت احمقانہ منصوبہ تھا لیکن باغیوں سے نبٹنے کا طریقہ اُس سے بھی زیادہ احمقانہ تھا۔‘‘

1923کی شراب خانہ اور 2023کی زمان پارک بغاوتوں کے درمیان بلا کی مماثلت کے بعد اہل پاکستان کے ذہنوں میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ ہماری ریاست، شرپسندوں اور فتنہ پردازوں کے ساتھ کیا سلوک کرنے جارہی ہے؟ کیا 9 مئی کے بعد بھی عمران خان کا شمار سیاستدانوں میں ہوتا ہے اور پی۔ٹی۔آئی آج بھی عمومی سیاسی جماعتوں میں گنی جائے گی یا 9 مئی کی بغاوت سے کوئی جوہری تبدیلی واقع ہوگئی ہے؟ عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ 9 مئی 2023تک تمام تر جمہوریت گریز رویّوں کے باوجود پی۔ٹی۔آئی سیاسی برادری کا حصہ تھی۔ عمران خان اپنی شوریدہ سری اور فتنہ پرور سرگرمیوں کے باوجود سیاست کے اکھاڑے میں تھے اور سیاستدان ہی شمار ہوتے تھے۔ لیکن کیا 9 مئی کی سوچی سمجھی منصوبہ بند بغاوت اور دو دنوں کی شرمناک دہشت گردی کو بھی عمومی سیاسی حرکیات کے کھاتے میں ڈالا جاسکتا ہے؟

عمران خان کامل ایک برس تک اس ’’انقلاب‘‘ کی منصوبہ بندی کرتے رہے۔اُن کے آتشیں بیانات ، فوج کے سینئر عہدیداروں پر سنگین الزامات، آرمی چیف کے بارے میں برہنہ گوئی اور فدائین کو لڑنے مارنے پر اُکسانے کے ناقابل تردید شواہد کوکیسے جھٹلایا جائے ؟ انہوں نے ’’گوئبلز‘‘ کا لشکر جرار تیار کیا جن کی قدرت ِ فن گوئبلز سے بھی دس ہاتھ آگے تھی۔ انہیں آج بھی یقین ہے کہ کسی آن ایک بھونچال آئے گا اور انہیں اچھال کر زمان پارک سے وزیراعظم ہائوس لا بٹھائے گا۔ 9مئی کی بغاوت کا مقصدبھی اسی بھونچال کو حرکت میں لانا تھا۔ فتنہ وفساد کے دس دن بعد انہوں نے ’’مذمت‘‘ کا لفظ بھی اِس بے دلی سے ادا کیا جس طرح شادی پر نہ آمادہ ہونے والی مجبور دُلہن نکاح کے وقت ہچکیاں لیتے ہوئے ’’ہاں‘‘ کہتی ہے۔

امریکہ نے پارلیمنٹ پر حملہ آور ہونے والوں میں سے کسی کو نہیں بخشا۔ برطانیہ نے 2011کے بلوائیوں کو کڑی سزا ئیں دیں، چاہے وہ کھڑکی کا ایک شیشہ توڑنے والی تیرہ سالہ بچی تھی یا دو جانگھیے چرانے والی غریب خاتون۔ اگر ہم بھی 2023کی بغاوت سے1923جیسی حماقت ہی سے نبٹے اور سنگین جرائم کو انسانی حقوق کی قبائے خوش رنگ پہنادی تو ملک بھر کی ایک سو سولہ جیلوں میں بند اٹھاسی لاکھ قیدیوں کو بھی رہا کردینا ہوگا کہ اُن میں سے کسی قیدی کا جرم، 9 اور 10مئی کے جرائم سے زیادہ سنگین نہیں

پاکستان میں عیدالاضحٰی کس تاریخ کو ہوگی؟

ہے۔

Back to top button