شہبازحکومت دوبارہ دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کی جانب گامزن

شہباز حکومت بالآخر اپنی دو تہائی اکثریت بچانے میں کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری کی منظوری کے بعد الیکشن ترمیمی ایکٹ کے قانون بن جانے سے مخصوص نشستوں کے ان ارکان کی بحالی کی راہ ہموار ہوجائے گی جنہیں عدالتی حکم سے معطل کر دیا گیاتھا جس کے بعد الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے حکومتی جماعتوں کے اراکین کے نوٹیفکیشن بحال کر سکے گا۔ جس کے بعد نہ صرف اتحادی حکومت کی دو تہائی اکثریت برقرار رہے گی بلکہ پی ٹی آئی کا پارلیمنٹ کا بڑی سیاسی جماعت ہونے کا خواب بھی چکنا چور ہو جائے گا۔

ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لئے صدر کو پیش کیا جائے گا جسکے بعد اسے قانون کا درجہ مل جائے گا جبکہ اعلان کے مطابق تحریک انصاف قانون بنتے ہی اسےفوری عدالت عظمی میں چیلنج کرے گی اور عدالت سے اس پر عملدرآمد روکنے کی استدعا کرے گی،توقع ہے سماعت نظر ثانی اپیلوں کے ساتھ آئندہ ماہ ہوگی تاہم لگتا ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کھلی جنگ کا آغاز ہورہا ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق الیکشن ایکٹ مجربہ 2017میں ترمیم کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ان ارکان کو قانون ساز اداوں کے رکن کی حیثیت سے تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے جنہیں ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے اپنے ایوانوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا اور اس فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے ان ارکان کے رکن کی حیثیت سے نوٹیفکیشن معطل کردیئے تھے یہ ارکان مخصوصی نشستوں کیلئے آئین کی دفعہ 51اور 107کے تحت بالترتیب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن بن گئے تھے وہ رکنیت کا حلف اٹھا کر ان ایوانوں میں بیٹھ کر کاررروائی میں حصہ لے رہے تھے

تاہم بعض دیگر تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ کوئی بھی قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے،تاہم  پارلیمنٹ سے الیکشن ایکٹ کی منظوری کے بعد لگتا ہے مخصوص نشستوں کا معاملہ لٹک جائیگا کیونکہ اس قانون کا مقصد سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر موثر کرنا ہے، یہ ترامیم سپریم کورٹ اور عدلیہ پر باقاعدہ محاذ آرائی کا اگلہ مرحلہ ہے۔ جس کا دوسری طرف سے لازمی جواب بھی آئے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مخصوص نشستوں کے معاملے میں ایک اور موڑ آیا ہے ۔ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر تناز ع کھڑا ہوگیا ہے اپوزیشن احتجاج کررہی ہے۔ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ یہ بل خلاف آئین اور بدنیتی پر مبنی ہے جبکہ حکومت اس قانون سازی کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ مبصرین کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ ماہ 12جولائی کو سپر یم کورٹ کے فیصلہ سے جو سیاسی اور پارلیمانی فتح حاصل کی تھی اسے پارلیمنٹ نے صرف 25 دن کے بعد شکست میں تبدیل کردیا ہے، جس کے بعد حکومتی اتحاد کی دو تہائی اکثریت فی الحال برقرار رہے گی۔مسلم لیگ ن بڑی اکثر یتی جماعت کے طور پر بھی بر قرار رہے گی۔

تجزیہ کاروں کے مطابق صدر مملکت کی منظوری کے بعد یہ قانون نافذ العمل ہوجائے گا۔ اس نئے قانون کے نفاذ سے سپریم کورٹ کا فیصلہ عملاً بے اثر ہوجائے گا کیونکہ اس کا اطلاق موثر بہ ماضی الیکشنز ایکٹ 2017کے اجرا سے ہوگا۔ نئے بل کے تحت انتخابی نشان کے حصول سے قبل پارٹی سرٹیفکیٹ جمع نہ کرانے والا امیدوار آزاد تصور ہوگا۔ مقررہ مدت میں مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہ کرانے کی صورت میں کوئی سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں ہوگی۔ ترمیمی بل کے مطابق کسی بھی امیدوار کی جانب سے مقررہ مدت میں ایک مرتبہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا اظہار ناقابل تنسیخ ہوگا۔ اس طرح پی ٹی آئی کو اب مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی اور نہ ہی وہ سنی اتحاد کونسل سے کی گئی وابستگی سے دستبردار ہوسکیں گے۔پی ٹی آئی کی قیادت نے نئے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح دوبارہ معاملہ سپر یم کورٹ میں جائے گا تاہم فی الحال پی ٹی آئی کا مورال گر گیا ہے۔ حکومتی موقف یہ ہے کہ قانون سازی پار لیمنٹ کا اختیار ہے۔ یہ بل آئین اور قانون کے عین مطابق ہے۔

Back to top button