فیض حمید کا جنرل عاصم منیر مخالف ہیڈ کوارٹر بے نقاب ہوگیا

سینئر صحافی وتجزیہ کار سید طلعت حسین کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید پر الزامات کی فہرست بہت طویل ہے، جنرل فیض کے نیٹ ورک میں ن لیگ، عدلیہ کے لوگ بھی شامل تھے، عدلیہ کے بہت سارے لوگ بھی فیض حمید کے ساتھ ان ٹچ تھے جب پورے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا جائے گا تو بہت سے پردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آنے کا امکان ہے۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے طلعت حسین کا مزید کہنا تھا کہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری پاک فوج کے اہم ترین کیسزمیں احتساب کا ٹاپ آف دی لائن کیس ہے کیونکہ جنرل فیض کے کئے ہوئے اقدامات کا خمیازہ پاکستان کا سارا نظام بھگت رہا ہے۔ جنرل فیض کی پالسییوں نے نہ صرف ملکی سیاسی نظام کو برباد کیا بلکہ ملکی معاشی نظام اور فوج کے نظام کو بھی سخت زد پہنچائی۔طلعت حسین کے مطابق جنرل فیض حمید پر الزامات کی فہرست بڑی طویل ہے ۔ تاہم ان پر جو الزامات 9مئی کے حوالے سے ہیں وہ بڑے سنجیدہ ہیں۔ غیر رسمی طور پر عسکری ذرائع بھی اس کی تصدیق کرتے نظر آتے ہیں۔ طلعت حسین کے بقول ہم نے اس نظام کی سختی بھگتی ہے ۔اس سختی کی ریڑھ کی ہڈی عمران خان اور جنرل فیض کا گٹھ جوڑ تھا جنرل باجوہ اس سارے سسٹم کو سپروائز کر رہے تھے۔ جنرل فیض کیخلاف ٹاپ سٹی ایک کیس ہے مگر ان کیخلاف اصل معاملات ریٹائرمنٹ کے بعد کے ہوں گے۔کیونکہ جنرل فیض کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملک میں ایک ہیجان برپا کیا گیا، فوج کے خلاف مہم چلائی گئی،مزید برآں 9 مئی کے واقعہ کے ذریعے نہ صرف فوج کو شرمندہ کیا گیا بلکہ یہ بھی بتانا تھا کہ ہماری طاقت اور پہنچ کیا ہے۔جنرل فیض نے ایک ان فارمل جنرل ہیڈ کوارٹر بنایا ہوا تھا جس کے ذریعے فوج مخالف یہ تمام مہم چلائی جارہی تھی۔ جنرل فیض کو ان تمام سیاہکاریوں کا جواب دینا پڑے گا۔

دوسری جانب اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق آج کل پاکستانی ٹی وی چینلز پر جتنا ذکر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کا ہو رہا ہے شاید ہی کسی سابق فوجی کے اتنے قصے کہانیاں سامنے آئے ہوں۔سینیئر صحافیوں و تجزیہ کاروں کے ٹی وی چینلز پر تجزیوں پر یقین کریں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ فوج کم چلا رہے تھے اور سیاست زیادہ کر رہے تھے۔

پاکستان فوج کے تحویل میں لیے جانے کے اعلان میں سرفہرست وجہ تو نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے معاملات بتائے گئے ہیں لیکن اس پر کوئی زیادہ بات نہیں ہو رہی۔ سیاست میں ان کا مبینہ کردار مکمل طور پر چھایا ہوا ہے۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاک فوج کی قانونی کارروائی کا سامنا کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کون ہیں اور ان کا سیاست سے کیا لینا دینا ہے؟مبصرین کے مطابق جنرل فیض کے عسکری دور کے تنازعات میں فیض آباد دھرنا سر فہرست ہے۔جنرل فیض حمید کا نام 2017 میں پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا اور اس کے بعد سے آج تک وہ کسی نہ کسی حوالے سے خبروں کی زینت بنتے رہے۔ تحریک لبیک کے اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر 20 دنوں سے جاری دھرنے کے خاتمے میں ان کا کردار اہم تھا۔بعد میں تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی نے میڈیا کو دیے گئے بیان میں کہا تھا انہوں نے کسی حکومتی شخصیت سے نہ مذاکرات کیے اور نہ معاہدہ بلکہ مذاکرات جنرل فیض سے ہوئے اور وہی ضامن بھی تھے۔ اس معاہدے کی وجہ سے ان پر کڑی تنقید ہوئی اور سپریم کورٹ نے فوج کو سیاست سے دور رہنے کا حکم دیا تھا۔

سنہ 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان کی حکومت نے 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا۔ انہوں نے موجودہ فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر کی جگہ یہ عہدہ سنبھالا تھا۔بطور ڈی آئی ایس آئی سربراہ فیض حمید پی ٹی آئی کے سربراہ اور وزیرِاعظم عمران خان کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دراصل آئی ایس آئی کے ایک اور سابق سربراہ جنرل پاشا اور جنرل فیض ہی تحریک انصاف ’پراجیکٹ‘ کے مبینہ معمار تھے۔مسلم لیگ ن پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے، قانون سازی کے لیے اسمبلی اجلاسوں میں اراکین کی حاضری پوری کروانے اور بجٹ منظور کروانے میں بھی ملوث رہے۔ 2017 اور 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی اور پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم نے بھی ان پر مداخلت کے الزامات عائد کیے تھے۔ تاہم فیض حمید نے شوکت صدیقی کے الزامات کی تردید کی تھی۔

خیال رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید جون 2019 میں ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیے گئے تھے۔ وہ آئی ایس آئی کو چھوڑ کر کور کی کمان کا تجربہ حاصل کرنے پشاور گئے لیکن آرمی چیف نہ بنانے پر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی تاہم ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سیاسی طور پر متحرک تھےاور ان کی یہی غلطی ان پر شکنجہ کسنے کا سبب بنی، مبصرین کے مطابق فیض حمید کو اس وقت کے مقتدر حلقوں نے ہی بظاہر عمران خان کو بنانے، سنوارنے کی ذمہ داری سونپی تھی لیکن وہ خود اس منصوبے کے قیدی ہو کر فوج کی حراست میں جا پہنچے ہیں۔

Back to top button