جنرل فیض حمید کا مارشل لا لگا کر پیوٹن بننے کا پلان کیا تھا؟

کورٹ مارشل کا شکار ہونے والے آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی فیض حمید نے سابق وزیراعظم عمران خان کے ذریعے آرمی چیف بننے کے بعد ملک میں مارشل لا لگا کر روسی صدر پیوٹن کی طرح 10 برس تک اقتدار میں رہنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا لیکن اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی یہ منصوبہ بھی ختم ہو گیا۔

اپنی تازہ تجزیے میں سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری یہ انکشاف کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جنرل قمر باجوہ نے 29 نومبر 2016 کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا۔ تب لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘ انھیں اس عہدے پر ابھی دو سال ہوئے تھے۔ وہ 7 نومبر 2014 کو جنرل ظہیر الاسلام کے بعد ڈی جی بنے تھے۔ ان کی تقرری وزیراعظم میاں نواز شریف نے کی تھی لیکن وزیراعظم پاناما اور ڈان لیکس کی وجہ سے ان سے خوش نہیں تھے چنانچہ انھوں نے جنرل باجوہ سے پہلی ملاقات میں جنرل رضوان اختر کی جگہ جنرل نوید مختار کو ڈی جی آئی لگانے کی فرمائش کر دی۔ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نواز شریف کے رشتے دار تھے‘ یہ مریم نواز کے سمدھی چوہدری منیر کے بھانجے ہیں اور انکے والد بریگیڈیئر مختار بھی فوج میں تھے۔ جنرل باجوہ نے نواز شریف کی سفارش مان لی‘ انھوں نے جنرل رضوان اختر کو این ڈی یو بھجوا دیا اور وزیراعظم نے لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کو ڈی جی آئی تعینات کر دیا تاہم آرمی چیف نے میجر جنرل فیض حمید کو ڈی جی سی مقرر کر دیا‘ ڈی جی سی آرمی چیف اور ڈی جی آئی کے بعد اسٹیبلشمنٹ میں تیسرا اہم ترین عہدہ ہوتا ہے۔ جنرل فیض حمید کے سسر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمد فاروق جنرل باجوہ کے سسر میجر جنرل (ریٹائرڈ) اعجاز امجد کے دوست تھے لہٰذا جنرل باجوہ اور جنرل فیض دونوں ایک دوسرے کے فیملی فرینڈ ہیں۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ میجر جنرل فیض حمید نے ڈی جی سی کی حیثیت سے کام شروع کر دیا۔ اس دوران جنرل باجوہ نے احسان فراموشی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے فیض حمید کے ساتھ مل کر نواز شریف کو نکالنے اور عمران خان کو وزیراعظم بنوانے کا منصوبہ تیار کر لیا جس میں جسٹس ثاقب نثار بھی ان دونوں کے پارٹنر تھے۔ نواز شریف کی نااہلی اور 2018 کے انتخابات کے بعد جب عمران خان وزیراعظم بن گئے وزیراعظم ب گے تو جنرل فیض سیاہ و سفید کے مالک ہو گئے۔ جنرل عاصم منیر ڈی جی آئی بن گئے لیکن عمران ہمیشہ بات جنرل فیض حمید کی مانتے تھے۔ پھر جنرل فیض نے سازش کر کے جنرل عاصم منیر کو ہٹوا دیا اور عمران خان نے انھیں ڈی جی آئی ایس آئی بنا دیا۔ اس کے بعد جنرل فیض حکومت کے ماتحت نہ رہے بلکہ خود ہی حکومت بن گئے اور وزیراعظم، کابینہ، عدلیہ اور اسمبلی چلانے لگے۔

جاوید چوھدری کہتے ہیں کہ قصہ مختصر، جنرل فیض نے وقت گزرنے کے ساتھ فرسٹ لیڈی بشریٰ بی بی کو بھی شیشے میں اتار لیا اور وہ بھی ان پر اندھا دھند اعتماد کرنے لگیں۔ جنرل فیض حمید نے اس دوران ایک دل چسپ پلان بنایا‘ انھوں نے جنرل قمر باجوہ کو ایکسٹینشن کے لیے تیار کیا‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل باجوہ کو تین سال ملنے کے بعد جنرل فیض حمید آرمی چیف کی دوڑ میں شامل ہو سکتے تھے۔ ان کا یہ منصوبہ کام یاب ہو گیا جسکے بعد وہ وزیراعظم اور فرسٹ لیڈی کے مزید قریب ہو گئے۔ فیض کا منصوبہ یہ تھا کہ وزیر اعظم عمران خان انہیں جنرل باجوہ کے بعد آرمی چیف بنا دیں گے اور وہ اس کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو جڑوں سے اکھاڑ دیں گے‘ اپوزیشن قیادت کے خلاف دھڑا دھڑ مذید عدالتی فیصلے آئیں گے اور وہ سب ڈس کوالی فائی ہو جائیں گے‘ اسکے بعد جنرل فیض 2024 میں عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم بنوائیں گے‘ اور وہ انہیں بطور آرمی چیف انھیں ایکسٹینشن دیں گے۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ اس کے بعد فیض کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ 2028 میں عمران خان کو فارغ کر کے مارشل لاء لگا دیں گے اور یوں صدر پیوٹن بن کر مزید 10 برس تک اقتدار میں رہیں گے۔ یہ معاملہ اسی سمت میں چل رہا تھا لیکن پھر عمران کی حماقتیں سامنے آنے لگیں‘ اس نے عالمی سطح پر ملک کے لیے مسائل پیدا کر دیے‘ فوج عوام میں بھی بری طرح بدنام ہو گئی‘ فوج کی سینئر قیادت کو جنرل فیض کے پلان کی بھنک بھی پڑ گئی جس کی وجہ سے معاملات خراب ہو گئے اور فوجی قیادت نے فیض کو جی ایچ کیو واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ عمران کو منظور نہیں تھا‘ انھوں نے شور شروع کر دیا‘ انھیں بتایا گیا جنرل فیض جب تک ایک سال کور کمانڈ نہ کر لیں یہ آرمی چیف کے لیے کوالی فائی نہیں ہو سکتے‘ عمران خان نے اس کے جواب میں کہا ’’آپ آئی ایس آئی کو "کور” ڈکلیئر کر دیں‘‘۔ انھیں بتایا گیا ’’یہ ممکن نہیں‘‘ خان کا جواب تھا ’’ہم نے آپ کو ایکسٹینشن دینے کے لیے قانون بدل دیا تھا‘ آپ بھی اب جنرل فیض اور ہمارے لیے آرمی ایکٹ میں تبدیلی کر دیں‘‘۔ عمران کے اس جواب کے بعد آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی‘ اور معاملہ نوریٹرن تک پہنچ گیا۔

بہرحال قصہ مزید مختصر جنرل فیض کو پشاور کا کور کمانڈر بنا دیا گیا اور جنرل ندیم انجم ان کی جگہ آ گئے‘ جنرل فیض ہٹ گئے مگر یہ پی ٹی آئی کے سسٹم کا حصہ رہے‘ یہ پشاور میں بیٹھ کر بشریٰ بی بی اور عمران خان کو مشورے دیتے رہے اور ان کی مدد بھی کرتے رہے‘ انھیں روکا گیا لیکن جب یہ باز نہ آئے تو انھیں پشاور سے بہاولپور شفٹ کر دیا گیا مگر یہ وہاں سے بھی خان کے لیے سہولت کاری کرتے رہے‘ عمران خان سے قومی اسمبلی سے استعفے بھی جنرل فیض حمید نے دلوائے تھے اور خان صاحب نے پنجاب اور کے پی کی حکومتیں بھی ان کے مشورے سے توڑی تھیں۔
جنرل عاصم منیر کی تقرری رکوانے کے لیے لانگ مارچ کا مشورہ بھی جنرل فیض نے دیا تھا‘ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کو بھی یہ ہینڈل کر رہے تھے‘ انھوں نے سعودی شاہی خاندان کو جنرل عاصم منیر کے عقائد کے بارے میں غلط اطلاع دی تھی۔ تاہم اس کے باوجود جنرل عاصم منیر آرمی چیف تعینات ہو گئے جس کے بعد جنرل فیض نے ریٹائرمنٹ لے لی لیکن انھوں نے پی ٹی آئی کی سہولت کاری سے ریٹائرمنٹ نہ لی‘ یہ ’’ان سائیڈر‘‘ تھے لہٰذا یہ فوج کے حساس اعصابی نظام سے واقف تھے‘ یہ جانتے تھے فوج کس چیز سے زیادہ متاثر ہوتی ہے چناں چہ انھوں نے اس حساس اعصابی نظام پر حملے شروع کر دیے تاکہ فوج میں بغاوت کی آگ کو بھڑکایا جا سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں مارشل لا لگا کر 10 برس تک حکومت میں رہنے کا منصوبہ بنانے والے فیض حمید آج کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں۔

Back to top button