آئینی ترمیم : مجوزہ 53 ترامیم کی تفصیلات سامنے آگئیں

حکومت کی جانب سے آئین میں 53 ترامیم کی تفصیلات سامنےآگئیں جو کچھ اس طرح ہیں۔

پہلی ترمیم: آئین کےآرٹیکل 9 اے میں ایک لائن کااضافہ، ’صاف ماحول ہر فرد کا بنیادی حق‘۔

دوسری ترمیم: (1) آرٹیکل 17 میں ترمیم، لفظ سپریم کورٹ کو وفاقی آئینی عدالت سےتبدیل کردیاجائے۔

دوسری ترمیم: (2) حکومت پاکستان کےخلاف کام کرنےوالی جماعت کا معاملہ سپریم کورٹ کی بجائے وفاقی آئینی عدالت کو بھیجے گی۔

تیسری ترمیم آرٹیکل 48: وزیراعظم،کابینہ کی صدر کو ایڈوئز کسی عدالت اور ٹربیونل میں چیلنج نہیں ہوسکے گی۔

وضاحت: آرٹیکل 48 میں سےایڈوائز میں سے وفاقی وزیر اور وزیر مملکت کو نکال دیاگیا ہے۔

چوتھی ترمیم: آرٹیکل 63 اے میں تین ترامیم تجویز،ووٹ شمار ہوگا، ڈی سیٹ کرنےکا معاملہ وفاقی آئینی عدالت میں جائےگا۔

پانچویں ترمیم آرٹیکل 68: وفاقی آئینی عدالت کے جج کےخلاف پارلیمان میں بات نہیں ہوسکتی۔

چھٹی ترمیم  آرٹیکل 78: آئینی عدالت میں جمع ہونے والی رقم وفاقی حکومت کو جائے گی۔

ساتویں ترمیم آرٹیکل 81: تین ترامیم شامل، لفظ وفاقی آئینی عدالت شامل کیاجائے۔

آٹھویں ترمیم آرٹیکل 100: اٹارنی جنرل پاکستان وہ شخص تعینات ہوگاجو وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کا جج بننے کااہل ہو۔

نویں ترمیم آرٹیکل 111: ایڈوائزرز صوبائی اسمبلیوں اور کمیٹیوں کےاجلاس میں شریک ہوسکیں گے۔

دسویں ترمیم آرٹیکل 114: صوبائی اسمبلی میں وفاقی آئینی عدالت کےججز پر بات نہیں ہوسکے گی۔

گیارہویں ترمیم آرٹیکل 165اے: انکم ٹیکس شق میں وفاقی آئینی عدالت کےالفاظ کا اضافہ ہوگا۔

بارہویں ترمیم آرٹیکل 175 اے: آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی اور ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کاجائزہ شامل۔

بارہویں ترمیم:(1) جوڈیشل کمیشن میں تبدیلی، وفاقی آئینی عدالت کا سربراہ چیئرپرسن ہو گا۔

بارہویں ترمیم: (2) جوڈیشل کمیشن میں چیئرمین کے علاوہ 12 ارکان ہوں گے۔

بارہویں ترمیم: (3) جوڈیشل کمیشن میں وفاقی آئینی عدالت کے دو ججز، چیف جسٹس سپریم کورٹ، سپریم کورٹ کےدو سینئر ترین ججز شامل ہوں گے۔

بارہویں ترمیم: (4) وزیر قانون،اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کا نمائندہ جوڈیشل کمیشن کا حصہ ہو گا۔

مریم نواز کا 5سال میں پانچ لاکھ گھر بنانے کا اعلان

بارہویں ترمیم: (5) قومی اسمبلی سےحکومت اور اپوزیشن کے دو، سینیٹ سے حکومت اور اپوزیشن کے دو نمائندے شامل ہوں گے۔

بارہویں ترمیم: (6) سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کےلیے چیف جسٹس سپریم کورٹ کمیشن کے چیئرپرسن ہوں گے۔

بارہویں ترمیم: (7) آئینی عدالت کےججز کی تعیناتی کی سفارش اسپیکر کی نامزد کردہ 8 رکنی قومی اسمبلی کی کمیٹی کرےگی۔

بارہویں ترمیم: (8) پہلی بار آئینی عدالت کےججز کی تعیناتی صدر چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کی مشاورت سے کریں گے۔

بارہویں ترمیم: (9) چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تعیناتی طریقہ کار میں تبدیلی

چیف جسٹس سپریم کورٹ کا نام کمیٹی تین سینئر ترین ججز میں سے کرے گی۔

بارہویں ترمیم: (10) ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا کمیشن سالانہ جائزہ لے گا۔

بارہویں ترمیم: (11) اگر کسی جج کر کارکردگی تسلی بخش نہیں تو وقت دیاجائے گا ورنہ کمیشن سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ بھیجے گی۔

تیرہویں ترمیم: آرٹیکل 175 بی میں ترمیم: چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کی تعیناتی اور دائرہ کار

چودھویں ترمیم: آرٹیکل 176 میں ترمیم: چیف جسٹس پاکستان کو چیف جسٹس سپریم کورٹ کہاجائے گا۔

پندرہویں ترمیم: آرٹیکل 176اے کی شمولیت: دوہری شہریت کا مالک وفاقی آئینی عدالت کا جج نہیں ہوسکتا۔

سولہویں ترمیم: آرٹیکل 177: سپریم کورٹ ججز کی اہلیت سےمتعلق ہے۔

سترھویں ترمیم: آرٹیکل 177 اے: چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت ک حلف سے متعلق ہے۔

اٹھارویں ترمیم: آرٹیکل 178اے: وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہوگی۔

انیسویں ترمیم: آرٹیکل 179: چیف جسٹس سپریم کورٹ کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہوگی۔

بیسویں ترمیم: 179 اے، 179 بی: وفاقی آئینی عدالت کےجج کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ کا جج صدر مملکت عارضی طو پر تعینات کریں گے۔

اکیسویں ترمیم: آرٹیکل 182اے کی شمولیت: وفاقی آئینی عدالت اسلام آباد میں ہوگی۔

22ویں ترمیم: (1) آرٹیکل 184: دو یا اس سےزیادہ حکومتوں کےدرمیان تنازعہ وفاقی آئینی عدالت دیکھے گی۔

22ویں ترمیم: (2) مفاد عامہ کےمعاملات پر تمام مقدمات وفاقی آئینی عدالت سنے گی۔

22ویں ترمیم: (3) مفاد عامہ کےتمام مقدمات سپریم کورٹ سے وفاقی آئینی عدالت منتقل ہوجائیں گے۔

23 ویں ترمیم: 184 اے کی شمولیت: ہائی کورٹس کے آئینی معاملات پرفیصلے وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج ہوسکیں گے۔

24ویں ترمیم: آرٹیکل 185: ہائی کورٹس کی اپیلیں سپریم کورٹ سنےگی، آئینی سوالات وفاقی آئینی عدالت سنےگی۔

25ویں ترمیم: آرٹیکل 186: صدرارتی ریفرنس پر سماعت آئینی عدالت کرےگی۔

26ویں ترمیم: (1) آرٹیکل 186 اے: سپریم کورٹ انصاف کےتقاضوں کو پورا کرنے کےلیے کوئی مقدمہ ایک ہائی کورٹ سےدوسری ہائی کورٹ کو بھجوا سکے گی۔

26ویں ترمیم: (2) وفاقی آئینی عدالت کسی بھی ہائی کورٹ کےسامنے معاملے کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا خود کو منتقل کرسکتی ہے۔

27ویں ترمیم: آرٹیکل 187 میں ترمیم: وفاقی آئینی عدالت کسی بھی متعلقہ شخص کو طلب کرسکتی ہے۔

28ویں ترمیم: آرٹیکل 188: وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار رکھیں گی۔

29ویں ترمیم: (1) آرٹیکل 189: وفاقی آئینی عدالت کاکسی بھی قانونی اصول حکم نامہ سپریم کورٹ سمیت ساری عدالتوں پر بائنڈنگ ہوگا۔

29ویں آئینی ترمیم: (2) سپریم کورٹ کا قانونی اصول پر کوئی بھِی فیصلہ وفاقی آئینی عدالت پر بائنڈنگ نہیں ہوگا۔

30ویں ترمیم: آرٹیکل 190: تمام جوڈیشل اتھارٹیز وفاقی آئینی عدالت کی مدد کی پابند ہوں گی۔

31ویں ترمیم: آرٹیکل 191: سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت اپنےقواعد و ضوابط بنائیں گے۔

32ویں ترمیم: آرٹیکل 192: ہائی کورٹس کےججز کی تعداد کاتعین ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہوگا۔

33ویں ترمیم: (1) آرٹیکل 193: ہائی کورٹ کے ججز کی تعیناتی کےطریقہ کار میں تبدیلیاں۔

33ویں ترمیم: (2) دوہری شہریت رکھنےوالا ہائی کورٹ کا جج نہیں ہوسکتا۔

33ویں ترمیم: (3) ہائی کورٹ جج کےلیے ہائی کورٹ وکالت کا کم از کم 15 سال کا تجربہ، 15 سال جوڈیشل آفس کاتجربہ ضروری قرار۔

34ویں ترمیم: (1) آرٹیکل 199: ہائی کورٹ از خود آرڈر جاری نہیں کرسکے گی۔

34ویں ترمیم: (2) قومی سلامتی سےمتعلقہ کسی شخص پر ہائی کورٹ حکم جاری نہیں کرسکے گی۔

35ویں ترمیم: آرٹیکل 200: صدر مملکت جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر کسی جج کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر کر سکیں گے۔

36ویں ترمیم: آرٹیکل 202: ہائی کورٹ قواعد و ضوابط ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت بنائے جاسکیں گے۔

37ویں ترمیم: آرٹیکل 204: توہین عدالت میں وفاقی آئینی عدالت کو بھی شامل کرنےکی تجویز

38ویں ترمیم: آرٹیکل 205: وفاقی آئینی عدالت کی تنخواہیں مقرر کرنےکو شامل کیاگیا ہے۔

39ویں ترمیم: آرٹیکل 206: وفاقی آئینی عدالت کے جج کےاستعفے کو شامل کیاگیا ہے۔

40ویں ترمیم: آرٹیکل 207: جج آفس آف پرافٹ نہیں لےسکتا، وفاقی آئینی عدالت کو شامل کیاگیا ہے۔

41ویں ترمیم: آرٹیکل 208: وفاقی آئینی عدالت کےافسران کی تعیناتیوں سے متعلق الفاظ کی شمولیت

42ویں ترمیم: (1) آرٹیکل 209: سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل میں تبدیلیاں

42ویں ترمیم: (2) سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت، چیف جسٹس سپریم کورٹ، آئینی عدالت کا سینئر ترین جج، ہائی کورٹس کے دو سینئر ترین ججز شامل ہوں گے۔

43ویں ترمیم: آرٹیکل 210: کسی شخص کو طلب کرنے کا کونسل کااختیار وفاقی آئینی عدالت کا اختیار ہو گا۔

44ویں ترمیم: (1) آرٹیکل 215: چیف الیکشن کمشنریا الیکشن کمیشن کا کوئی ممبر نئی تعیناتیوں تک عہدوں پربرقرار رہیں گے۔

44ویں ترمیم: (2) آرٹیکل 215 میں ون اے کا اضافہ: چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کا کوئی بھی رکن قومی اسمبلی اور سینیٹ کی اکثریتی قرارداد سے دوبارہ نئی ٹرم کےلیے تعینات ہوجائیں گے۔

45ویں ترمیم: آرٹیکل 239: آئینی ترمیم کے خلاف کسی عدالت کا کوئی حکم نامہ موثر نہیں ہو گا۔

46ویں ترمیم: آرٹیکل 243: مسلح افواج کےسربراہان کی تعیناتیوں، دوبارہ تعیناتیوں، ایکسٹیشن، مدت ملازمت پاک فوج کےقوانین کےمطابق ہوں گے اور انہیں دو تہائی اکثریت کےبغیر تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

47ویں ترمیم: آرٹیکل 248: صدر، گورنرز کو آئین و قانون کےتحت قائم عدالتوں سے آئینی تحفظ حاصل ہوگا۔

48ویں ترمیم: آرٹیکل 255: حلف سےمتعلق وفاقی آئینی عدالت کےججز کو شامل کیاگیا ہے۔

49ویں ترمیم: آرٹیکل 259: صدارتی ایوارڈز میں سائنس و ٹیکنالوجی، ادویات، آرٹس اور پبلک سروس کااضافہ۔

50ویں ترمیم: آرٹیکل 260: وفاقی آئینی عدالت کےالفاظ کا اضافہ۔

51ویں ترمیم: شیڈول تین میں اضافہ: حلف نامے میں وفاقی آئینی عدالت کاحلف شامل۔

52ویں ترمیم: شیڈول چار میں تبدیلی: کنٹونمنٹ ایریاز میں الفاظ لوکل ٹیکس، سیس، فیس، ٹول اور دیگر چارجز کو شامل کیاگیا ہے۔

53ویں ترمیم: شیڈول پانچ میں ترمیم: وفاقی آئینی عدالت کےالفاظ کا اضافہ

جن ترامیم پر اتفاق ہےوہ اکتوبر کےپہلے ہفتے میں منظور کرائی جاسکتی ہیں: رانا ثناء اللہ

Back to top button