’عمران نہیں تو پاکستان نہیں‘‘کی سیاست ختم کیوں ہونے والی ہے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ تحریک انصاف "عمران نہیں تو پاکستان بھی نہیں” کے نعرے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انتشار اور فساد کی جو سیاست کر رہی ہے وہ اب خاتمے کی جانب گامزن ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ عمران اور پاکستان میں سے اب ایک ہی بچ پائے گا، اور ظاہر ہے وہ مملکت خداداد پاکستان ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں پی۔ٹی۔آئی کے فدائین کا نعرہ ہے، ’’عمران نہیں تو پاکستان نہیں۔‘‘ درجنوں واقعات ایسے ہیں جن سے تصدیق ہوتی ہے کہ خود عمران خان خود بھی اسی فلسفہ ءِ سیاست کو اپنی سیاسی حکمتِ عملی کا جزوِ اعظم خیال کرتے ہیں۔ 2018 کے دھاندلی زدہ  الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعظم بننے والے عمران خان ہماری سیاسی تاریخ کے پہلے اور آخری وزیر اعظم ہیں جنہیں اسمبلی نے ووٹوں کے بل پر، شفاف آئینی اور جمہوری طریقے سے گھر واپسی کا راستہ دکھایا۔ لیکن عمران خان نے تب ایک نئی تاریخ رقم کی جب انہوں نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے قومی اسمبلی ہی توڑ دی۔ یعنی عمران نہیں تو پاکستان نہیں۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو غیر آئینی اقدام قرار دے کر اسمبلی بحال کر دی جس نے خان صاحب کو گھر بھیج دیا۔ یاد رہے کہ عمران سے پہلے فارغ ہونے والے وزرائے اعظم میں سے کسی کا سَر "اٹھاون ٹو بی” کی صدارتی تلوار سے قلم کیا گیا، کوئی شتر بے مہار ججوں کے قہر کا نشانہ بنا اور کوئی فوجی آمروں کا لقمہ بنا۔ لیکن عمران سے پہلے کسی ایک بھی پاکستانی وزیراعظم کے خلاف ایوان نے عدم اعتماد نہیں کیا تھا۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ خان صاحب کے ہائیبرڈ اقتدار کا قصہ کیا تمام ہوا، انہوں نے عدم اعتماد کی جمہوری روایت کو جان کا روگ ہی بنا لیا۔ اب وہ صرف پارلیمنٹ ہی کو نہیں بلکہ پاکستان کو بھی کوسنے دینے لگے۔ انہوں نے "عمران نہیں تو پاکستان بھی نہیں” کے فلسفہ سیاست پر عمل کرتے ہوئے ’’سائفر‘‘ سے کھیلنے کا ڈرامہ کیا اور امریکہ اور فوج پر سازش کا الزام لگا دیا۔ موصوف نے جنرل عاصم منیر کی تقرری رکوانے کیلئے ایسا سرکس لگایا جس کی مثال پاکستان تو کیا دنیا کی تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ 13 ستمبر 2024 کی شام عمران خان کے ترکش نے زہر میں بجھا ایک اور تیرچلایا۔ اُن کے، نیلے نشان والے باضابطہ ’ایکس‘ اکاؤنٹ سے ایک طویل پیغام جاری ہوا جس میں ایک بار پھر آرمی چیف کو نشانہ بنایاگیا۔ ایک بار پھر حمودالرحمن رپورٹ کی ورق گردانی کی گئی۔ ایک بار پھر یحییٰ خان اور مجیب الرحمن کی یادیں تازہ کی گئیں۔ ایک بار پھر قاضی فائز عیسیٰ پر سنگ بباری کی گئی اور عمران نہیں تو پھر پاکستان بھی نہیں کے فلسفے کے عین مطابق پاکستانیو‘‘ کو انقلاب کی خاطر سڑکوں پر آنے کیلئے اُکسایا گیا ۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے جون 2024 میں بھی ایک ایسا ہی ٹویٹ خان صاحب کے آفیشل اور مصدقہ اکاؤنٹ سے آیا تھا جسے انہوں نے اون کیا تھا۔ اُس میں بھی عاصم منیر اور یحییٰ خان کی تصاویر ساتھ ساتھ لگاتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ آج کے حالات بھی سقوط ڈھاکہ جیسے ہیں اور ’’فردِ واحد‘‘ ملک کی تقدیر سے کھیل رہا ہے۔ تب خاصا شور مچا تھا اور پی۔ٹی۔آئی کو مدافعانہ پالیسی اختیار کرنا پڑی تھی۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اس ٹویٹ پر سخت عوامی رد عمل آنے کے بعد خان صاحب کے قریبی ساتھیوں نے رنگارنگ وضاحتیں پیش کیں۔ ان کی جماعت کے سیکرٹری انفارمیشن رؤف حسن نے  اظہار لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا اکاؤنٹ تو امریکہ سے ہینڈل ہوتا ہے۔ لیکن علی محمد خان نے وعدہ کیا کہ آئندہ خان صاحب کی اجازت کے بغیر اُن کے اکاؤنٹ سے کوئی بیان جاری نہیں ہوگا۔ تا ہم اب موصوف نے ایک مرتبہ پھر فوجی قیادت اور چیف جسٹس پر گھٹیا حملہ کیا ہے جس کے بعد بلاول بھٹو نے بجا طور پر فرمایا ہے کہ خان صاحب کو اسکے نتائج بھگتنے کےلیے تیار رہنا چاہیے۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ عمران خان کا ایک مشن یہ بھی ہے کہ آئی۔ایم۔ایف پاکستان کو قرض نہ دے اور لوگ افلاس کا شکار ہوکر اُن کے ’’عہدِ زریں‘‘ کی یاد میں آہیں بھرنے لگیں۔ موصوف نے اپنے سابق وزیرخزانہ اور سینیٹر، شوکت ترین کے ذریعے خیبرپختون خوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو حکم دیا کہ وہ آئی۔ایم۔ایف کو خط لکھ کر خبردار کریں کہ پاکستان کی مدد نہ کی جائے۔ اسکے بعد موصوف نے خود آئی۔ایم۔ایف کو تنبیہ آمیز خط لکھا کہ پاکستان چونکہ انسانی حقوق پامال کررہا ہے اس لیے اُسے ہرگز مدد نہ دی جائے۔ مزید دباؤ بڑھانے کیلئے اپنے فدائین کے ذریعے آئی۔ایم۔ایف ہیڈکوارٹرز کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پھر لاکھوں ڈالرز سے خریدی گئی لابنگ فرمز کے ذریعے امریکی کانگریس سے پاکستان مخالف قرارداد منظور کرائی۔ غیر ملکی سفارت خانوں میں وفود بھیج کر اُنہیں باور کرایا گیس کہ پاکستان کی صورتِ حال تو بھارتی مقبوضہ کشمیر اور غزہ سے بھی بدتر ہے۔ زلفی بخاری کے ذریعے برطانوی ہاؤس آف لارڈز سے پاکستان مخالف بیانات جاری کرائے۔ اپنے ہمدم دیرینہ زلمے خلیل زاد کو عالمی سطح پر فوج اور ریاست کے خلاف زہر افشانی پہ اُبھارا۔ اس ساری تگ ودو میں اُن کا مقصد ذاتی سیاسی اہداف اور نشانہ پاکستان رہا۔

تاہم عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ سانحہ 9 مئی اشتعال اور ملک دشمنی کا نقطہ عروج تھا۔ یہ سادہ ترین الفاظ میں ایک باغیانہ سازش تھی جس کی پہلی کڑی پر کامیابی سے عمل ہوگیا۔ لیکن اس کے اگلے دو مراحل، فوجی قیادت کی دانش مندی اور بروقت اقدام کے باعث ناکام ہوگئے۔ دنیا کے کسی حصّے میں ریاست پر ایسا کھلا حملہ ہوا ہوتا تو اس کے کردار اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوتے لیکن ہمارے ہاں جزا وسزا کے معیار انوکھے ہیں۔ عدالت، آرمی ایکٹ کے تقاضوں کے سامنے دیوار کھڑ ی کر کے آسودہ ہو گئی۔اکتوبر میں اِس عبوری فیصلے کو ایک سال ہوجائے گا۔ یہ ہے وہ ماحول جس کے سبب عمران خان بجا طورپر سمجھنے لگے ہیں کہ وہ کچھ بھی کہیں، کچھ بھی کریں، کچھ بھی لکھیں، کچھ بھی ٹویٹ کریں، کوئی اُن سے باز پُرس نہیں کرسکتا۔ ملک کے طول وعرض پر محیط آئین، اُن کی دیوتائی شخصیت کا احاطہ نہیں کرتا، کسی بھی قانون کی کوئی شق اُن پر لاگو نہیں ہوتی، تعزیراتِ پاکستان کا کوئی ضابطہ انہیں میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ آئین وقانون کی بے چارگی، ریاست کی بے حکمتی اور عدلیہ کی معشوقانہ فراخ قلبی نے اُنہیں یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ کوئی بھی جُرم کرلیں ان پر دائمی استثنیٰ کی چادر تنی ہے۔

ججز کی تقرری کا اختیار ججز کے پاس ہونا جائز کیوں نہیں ہے؟

عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ عمران کا تازہ ترین ٹوئٹر پیغام، 9 مئی کا ’پرنٹ ایڈیشن‘ ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ سے آگ کے شعلے لپک رہے ہیں۔ یہ اوّل و آخر ایک بغاوت نامہ ہے۔ تصوّر کیجئے کہ اگر یہی باغیانہ بیان کسی اور چھوٹی یا بڑی جماعت کے کسی راہنما کی طرف سے آتا تو اس پر کیا گزرتی؟ بیس سال قبل مشرف دورمیں جاوید ہاشمی کو ایک خط دکھانے پر غدّاری، سازش اور بغاوت کے الزام میں 23 سال قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔ حصولِ اقتدار کے غیرجمہوری حربوں، عہدِاقتدار کے فسطائی کارناموں اور بعد از اقتدار کے وطن دشمن رویّوں کو سمیٹ کر اگر مصنوعی ذہانت والے کسی کمپیوٹر کو کوئی چہرہ تراشنے کیلئے کہا جائے تو دو سیکنڈ میں بڑی واضح تصویر سامنے آ جائے گی جو خان صاحب کی ہی ہو گی۔ لیکن اب یہ چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے اور "عمران نہیں تو پاکستان نہیں” کی سیاست بھی تیزی سے خاتمے کی جانب گامزن ہے۔

Back to top button