’بجلی جام ہڑتال‘ اور عوام

تحریر: مظہر عباس ۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ

بہت عرصہ بعد کسی سیاسی جماعت نے ’عوامی مسائل‘ پر ہڑتال کی کال دی ہے اور وہ بھی ورکنگ ڈے پر اب یہ کامیاب ہوتی ہے یا نہیں اس کا دارومدار خود عوام پر ہے کیونکہ شاید ہی ملک میں کوئی ایسا گھرانہ ہو جو اس سے متاثر نہیں ہوا اور وہ ہے ’بجلی کا بل‘ جو ہر ماہ بجلی بن کر گرتا ہے اور جس کے بوجھ تلے ایک متوسط طبقہ کا آدمی خاص طور پر دبتا چلا جا رہا ہے۔ اب یا تو آپ بجلی چور بن جائیں یا اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ اس کی نذر کر دیں۔ اب آج شٹر ڈائون ہوتا ہے یا پہیہ جام مگر جماعت اسلامی اور اس کے نئے امیر حافظ نعیم الرحمان یقینی طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے نہ صرف عوامی مسائل پر آواز بلند کی ہے بلکہ جماعت کا بھی سیاسی مزاج بدلنے کی کوشش کی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے دور میں کسی بھی ہڑتال سے سب سے زیادہ وہی طبقہ متاثر ہوتا ہے جس کیلئے ہڑتال کی جا رہی ہوتی ہے ویسے بھی ہمارا مجموعی رویہ کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ ۔۔۔حق اچھا پر اس کیلئے کوئی اور مرے تو اور اچھا۔ یعنی میں خود کوئی قربانی نہ دوں بس زبانی جمع خرچ پر گزارا کروں۔ جماعت اسلامی کی سیاست پر اور اس کی تنظیم پر میں کئی بار لکھ چکا ہوں ایک بار تو کئی سال پہلے منصورہ جا کر پورا پروگرام بھی کیا۔ ان سے سیاسی و نظریاتی اختلاف بھی رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے خود بھی ’سخت گیر‘ شوریٰ کے اراکین کے مقابلے میں عوامی رنگ لانے کی کوشش کی۔ شخصیت پرستی اس خطے کے سیاسی مزاج کا حصہ ہے اور گو کہ بڑے عرصہ تک جماعت نے اپنے آپ کو اس سے دور رکھا مگر غالباً قاضی حسین احمد مرحوم کی امارت میں اس میں کچھ تبدیلیاں ضرور نظر آئیں جس پر خود جماعت کے اندر انہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ انہوں نے امیر جماعت کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا مگر وہ شوریٰ نے منظور نہ کیا۔ البتہ جاتے جاتے اپنی تین قسطوں پر مشتمل امارت میں وہ جماعت کی قیادت کو یہ مشورہ ضرور دے گئے کہ ’جماعت کے دوستوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس ملک میں ان کے علاوہ بھی مسلمان بستے ہیں‘ مطلب یہ کہ سخت گیر رویوں سے خود جماعت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جماعت کے امیر سید منور حسن گو کہ اپنے ہی مزاج کے سیاستدان تھے اور ان سے کئی نشستیں رہی ہیں مگر وہ ’مقتدرہ‘ کو قابل قبول نہیں تھے شائد یہی وجہ ہے کہ ایک تو جب انہیں امیر جماعت اسلامی بنایا گیا تو ان کی عمر اور صحت ایسی نہیں تھی کہ وہ لمبے عرصہ تک امیر رہ سکتے دوسرے خود کئی جماعت کے اکابرین بھی شائد یہی چاہتے تھے۔ مختصر یہ کہ خود جماعت نے پروفیسر غفور احمد جیسے زیرک سیاستدان کو امیر نہ بنا کر صرف اور صرف جنرل ضیاء کو خوش کیا اور اپنے آپ کو نقصان پہنچایا کیوں کہ وہ شائد میاں طفیل کے طرز سیاست سے متفق نہیں تھے۔

حکومتی اتحادیوں کا "تخت یا تختہ” والا ذہن۔

ماضی کے امیروں کے مقابلے میں حافظ نعیم الرحمان میں ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے کی لگن رہتی ہے بعض اوقات اس کا نقصان بھی ہوتا ہے جیسا کہ حال ہی میں ہونے والا ’دھرنا‘ تقریباً گلے پڑ گیا تھا لیکن سیاست میں رسک لینا پڑتا ہے۔ آج کی ’بجلی جام ہڑتال‘ اس کا تسلسل نظر آتی ہے۔ بظاہر یہ ایک ’سولو فلائٹ‘ ہے مگر اس کی کاروباری طبقہ اور شائد ہی کوئی طبقہ ہو جو حمایت نہ کرے۔ اس سب کے باوجود اگر آج شٹر ڈائون رہتے ہیں، مارکیٹ اور کاروباری مراکز بند رہتے ہیں، ٹرانسپورٹ کم چلتی ہے تو ’بجلی‘ کے ناقابل برداشت بلوں کے خلاف یہ ایک خاموش احتجاج ضرور ہو گا۔ بہتر ہوتا کہ یہ ایک مشترکہ کال ہوتی کریڈٹ بہرحال اس کا جماعت کو ہی جاتا۔ آج سے چند سال پہلے حافظ نعیم نے ’کراچی بچائو‘ یا ’حق دو کراچی کو‘ کے عنوان سے مہم کا آغاز کیا جس کو ان کےبہت سے مخالفین نے ایم کیو ایم کے طرز سیاست سے تعبیر کیا مگر حقیقت تو یہی ہے کہ کراچی کو اس کا حق نہیں ملا اسے صرف ایک ایسی ’منڈی‘ سمجھا گیا جہاں ہر چیز بکتی ہے۔ مگر بجلی اور مہنگائی نے تو پورے ملک کو اپنی لپیٹ لیا ہوا ہے۔ اب وہ پتا نہیں کون سے اعداد وشمار ہوتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے۔ وہ تو صرف ایک صورت میں کم ہو سکتی ہے یا تو تنخواہ دار طبقہ کی تنخواہوں میں اضافہ ہو جائےیا بجلی الائونس ملنا شروع ہو جائے۔ ہمارے حکمرانوں کی پالیسیاں مجموعی طور پر ’عوام مخالف‘ ہوتی ہیں کیونکہ ان کا اپنا تعلق ’خواص‘ سے ہوتا ہے۔ تعلق عوام سے ہوتا تو فیصلے مری کے پُرفضا مقام پر ہفتوں گزارنے کے بعد نہیں ہوتے۔ درد آپ اس وقت تک محسوس نہیں کر سکتے جب تک آپ کو خود اندازہ نہ ہو کہ زخم کہاں لگا ہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر آپ کو یہ احساس نہیں ہو سکتا کہ ’سڑک ٹوٹی‘ ہوئی ہے۔ تصور کریں کہ چالیس پچاس سال سے ’کچے کے ڈاکوئوں‘ نے پکے کے ڈاکوئوں کیلئے مشکل کھڑی کی ہوئی ہے نہ جانے کتنے پولیس والے شہید ہوئے اب تو کچے والے بھی پکے ڈاکو بن گئے ہیں۔

خیر بات ہورہی تھی عوامی مسائل کی۔ ویسے ہی لوگ ’ٹیکس‘ نہیں دیتے اب بجائے اس کے کہ اس نظام کو بہتر بنا کر ٹیکس کا نیٹ ورک بہتر بنایا جاتا الٹا ان پر اضافی بوجھ ڈال دیا گیا جو پہلے ہی ٹیکس دیتے تھے یعنی ان کو بھی ٹیکس چوری کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ یقین جانیں چالیس سال کی صحافت میں بہت قریب سے ان سیاسی و غیر سیاسی حکمرانوں اور بیورو کریسی کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ یہ ملک صرف تین ’سی‘ پر چل رہا ہے، ’کنکشن (تعلقات)، دوسرا ’کمیشن‘ ہر کام پر ورنہ فائل نہیں ملتی اور تیسرا کرپشن۔ آپ کی سوچ صرف چند سیاستدانوں پر رک جاتی ہے مگر یقین جانیں صورت حال اس سے بہت زیادہ سنگین ہے مگر کیونکہ خود ’صحافت‘ اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے اس لیے خبریں، تبصرے اور تجزیہ بھی مجموعی طور پر ان تین ’سی‘ کا شکار ہو گئے ہیں۔

آگے بڑھنے کا راستہ خاصہ کٹھن ہے۔ جب انصاف کے ایوانوں سے ناانصافی کی بو آنی شروع ہو جائے، جب سیاست و صحافت محض ’کاروبار‘ ہو جائے جب خود حکومت اور ریاست ڈس انفارمیشن کا سب سے بڑا ذریعہ ٹھہریں، ایسے میں یا تو کوئی طوفان آتا ہے یا انارکی۔ یہ بات درست ہے کہ سب کو عراق، افغانستان، لیبیا سے سبق سیکھنا چاہئے اور آزادی کی قدر کرنی چاہئے مگر ان تمام ممالک بشمول شام میں ایک قدر مشترک تھی ان سب ممالک میں آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر ’پابندی‘ تھی اس لئے وہاں حکمرانوں کو پتا ہی نہ چلا کہ سچ کیا ہے۔

Back to top button