عمران کی رہائی کے لیے امریکی وفد کی آمد، نتیجہ پھر صفر نکلے گا

اڈیالہ جیل سے رہائی کے خواہشمند عمران خان کے ہمدرد امریکی نژاد پاکستانی ڈاکٹرز ایک مرتبہ پھر اسلام آباد پہنچ گئے ہیں، تاہم اس مرتبہ انہیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں مل رہی۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ چند ماہ پہلے ڈاکٹرز کا یہ گروپ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کر چکا ہے لیکن ان کے سمجھانے کے باوجود سابق وزیراعظم اپنے فوج اور ریاست مخالف بیانیے پر نہ صرف قائم رہے بلکہ اس میں اور زیادہ شدت لے آئے۔ خان کے اس بیانیے کی انتہا پاک بھارت جنگ کے دوران انکی جماعت کا پاکستانی فوج کی بجائے انڈیا کے ساتھ کھڑا ہونا تھا، لہذا اب اسٹیبلشمنٹ اور حکومت بانی پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف دینے کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔
سینیئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق عمران خان کیلئے خاموش سفارتکاری کرنے والے امریکا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹرز اور تاجر تحریک انصاف کے بانی کی رہائی کی تازہ کوششوں کے سلسلے میں ایک مرتبہ پھر پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ پاکستانی ڈاکٹروں اور تاجروں کے ایک گروپ نے چند ماہ قبل اسلام آباد کے دورے کے دوران ایک سینئر عہدیدار کے ساتھ ساتھ عمران خان سے جیل میں ملاقات کی تھی۔ یہ گروپ اس وقت لاہور میں موجود ہے۔ تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ وفد نے تو اب تک عمران خان سے ملاقات میں کامیاب ہوا ہے اور نہ ہی کسی اہم عسکری یا حکومتی عہدیدار کے ساتھ اس کی کوئی بات چیت ہو پائی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ امریکی نژاد پاکستانی ڈاکٹرز کا تازہ دورہ پاکستان پی ٹی آئی کے حامیوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے عمران کے قانونی اور سیاسی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران، کچھ غیر رسمی رابطوں کے باوجود عمران کی رہائی کے حوالے سے کسی اہم پیشرفت کی اطلاع نہیں۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے عمران کے ساتھیوں نے انہیں اپنی امیدوں کا مرکز بنا لیا تھا۔ لیکن ان تمام امیدوں پر تب پانی پھر گیا جب ٹرمپ نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کر لیے۔
ایسے میں اب عمران کی رہائی میں ٹرمپ کے کردار ادا کرنے کی امیدیں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ عمران کی رہائی کی کوششوں میں پیشرفت نہ صرف سیاسی مذاکرات پر منحصر ہے بلکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کے طرز عمل اور پارٹی کے غیر ملکی چیپٹرز، بالخصوص امریکا اور برطانیہ کے پیغامات پر بھی منحصر ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پچھلی مرتبہ امریکی نژاد ڈاکٹروں کے گروپ نے ملاقات کے دوران عمران خان کو سمجھایا تھا کہ وہ اپنے سوشل میڈیا بریگیڈ کو فوج اور ریاست مخالف بیانیہ تبدیل کرنے کی ہدایت کریں لیکن انہوں نے اس کے الٹ کیا۔
دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو ایک سزا یافتہ مجرم کے طور پر دیکھتی ہے جسے کوئی ریلیف نہیں دی جا سکتی۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمومی موقف یہی ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کر سکتی کیونکہ فوج غیر سیاسی ہوتی ہے، اسٹیبلشمنٹ کا موقف ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مسائل آپسی ڈائیلاگ سے خود حل کریں۔ لیکن اسکے باوجود تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے عمران کے ساتھی اہم عہدیداروں کے ساتھ پس پردہ بات چیت کیلئے رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے عسکری قیادت پر ہونے والی مسلسل تنقید ممکنہ مفاہمت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
کیا شہباز نے عاصم کو فیلڈ مارشل بنانے کا فیصلہ نواز کے مشورے سے کیا؟
عمران خان کے بیرون ملک موجود سوشل میڈیا بریگیڈ کی جانب سے فوج اور اسکی قیادت پر ہونے والی گندی تنقید اور ڈس انفارمیشن مہم نے معاملات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت نجی طور پر تسلیم کرتی ہے کہ فوج مخالف جارحانہ ہتھکنڈوں نے اسے سخت نقصان پہنچایا ہے۔ پارٹی کے اندر اس بات کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ بامعنی مذاکرات اور کشیدگی کم کرنے کے لئے ہی ٹی آئی کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو اپنی جارحانہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کی مشکلات میں کمی کا انحصار مثبت رویہ اختیار کرنے، معاشی بہتری میں خلل نہ ڈالنے اور فوجی قیادت پر تنقید روکنے پر ہو گا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں حکام کے ساتھ رابطوں کی کوشش کے ساتھ تجزیہ کار اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ آیا یہ کوششیں مفاہمت کے نئے مرحلے کا اشارہ دیتی ہیں یا پھر پی ٹی آئی ایک اور موقع ضایع کر دے گی۔
