ملک میں ہر طرف اشرافیہ کا قبضہ ہے

16 ہزار برطرف ملازمین کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں ہر طرف اشرافیہ کا قبضہ ہے جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ کیا بھرتیوں کا عمل شفاف تھا، کیا تقرریوں کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے ہوئے، معاملہ پبلک فنڈز کے استعمال سے جڑا ہے، حکومت کل تک قانون کی مخالف تھی، آج حمایت کر رہی ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا ہے حکومت کی ذمہ داری ہے تقرری میں شفافیت کو مد نظر رکھے، 1999 میں نکالے گئے کنٹریکٹ ملازمین کو 2010 کے ایکٹ کے ذریعے بحال اور مستقل کر دیا گیا، 2010 ہوتا تو قانون کا دفاع نہ کرتا، بہتر نہیں اگر ملازمین کو ریلیف دینا تو پارلیمنٹ سے دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کیساتھ تجاویز پر بات کر کے دلائل دوں گا۔ آئی بی کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیئے کہ 1947 سے اشرافیہ نے سول ملٹری کے مفادات کا دفاع کیا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو غیر آئینی طریقہ سے ہٹایا گیا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ 1993-96 تک بھرتیاں مستقل بنیادوں پر کیوں نہیں کی گئیں؟ سب غلطیاں اس وقت کی حکومت کی ہیں، ریاست اور عوام کے پیسے سے 2010 میں اپنی غلطی کا داغ دھونے کی کوشش کی گئی، ملک میں ہر طرف ایلیٹ کا قبضہ ہے، ایلیٹ شخصیات کا نہیں بلکہ پورے طبقے کا نام ہے۔

لوگ اپنا پیسہ بیرون ملک لیجا کر چھپا دیتے ہیں، جو کام 1993 میں کرنا چاہئے تھا وہ 2010 میں کیا گیا، اہلیت جانے بغیر انہیں مستقل کیا گیا، ملازمین کو اگر پنشن اور مراعات دی جاتی ہیں وہ بھی معیشت پر بڑا بوجھ ہوسکتا ہے، ریاست کو غریبوں کا بوجھ اٹھانا چاہئے، ربانی صاحب آج پارلیمان موجود ہے اس کے ذریعے جمہوریت لائیں، سیاسی چوائسز پارلیمنٹ کی ہو سکتی ہیں ہماری نہیں۔

عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو کل دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل ہدایات لے کر آگاہ کریں کہ ملازمین کے لیے پارلیمنٹ کیا اقدامات کر سکتی ہے؟ عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

Back to top button