آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے والوں کا نااہلی سے بچنے کا امکان
سپریم کورٹ سے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ حق میں آنے کی بعد جہاں اتحادی حکومت آزاد اراکین کو ساتھ ملا کر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی وہیں دوسری جانب حکومتی آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے والے پی ٹی آئی اراکین نااہل بھی نہیں ہونگے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی اراکین کے حزب اختلاف میں سنی اتحاد کونسل اور تحریک انصاف کے طور پر شناخت کے تنازع کی وجہ سے وہپ ہی متنازع رہے گی اور اس بات کو طے کرنے میں وقت لگے گا کہ آزاد اراکین کس پارٹی کی ہدایات کے پابند تھے۔جس کی وجہ سے ترامیم کی حمایت میں ووٹ دینے والوں کے خلاف ریفرنس طویل عدالتی جنگ کا شکار ہو جائیں گے اور اس طرح حکومتی تائید میں ووٹ دینے والے ایک وقت میں دو ٹکٹوں کے مزے کر سکیں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حقیقت میں پہلی وفاقی آئینی عدالت سمیت عدالتی اصلاحات پر مبنی آئینی پیکج کا مستقبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے ہاتھ میں آ گیا۔ سپریم کورٹ میں دائر آئین کی دفعہ 63-اے کی تشریح بارے نظر ثانی اپیل کا فیصلہ،آئینی ترامیم پارلیمانی ایوانوں میں پیش کرنے کے وقت کا تعین کرےگا.ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کا فیصلہ حکومت کے حق میں آنے کے 72گھنٹے میں پارلیمنٹ کے اجلاس طلب ہو جائیں گے۔دونوں پارلیمانی سیکریٹریٹس نے اس حوالے سے ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ تمام تر تیاریاں اس مفروضے کی بنیاد پر کی گئی ہیں کہ ملک کی عدالت عظمیٰ آئین میں انڈیلی گئی اس تحریف و تبدیلی کو موقوف کردے گی جو کم و بیش اڑھائی سال قبل سیاسی بنیادوں پر صادر کئے گئے ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے ماورائے آئین ممکن بنائی گئی تھی اور فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے رکن اسمبلی کی نہ صرف رکنیت ختم ہو جائے گی اور وہ ڈی سیٹ ہو جائے گا بلکہ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں کیا جائے گا۔
تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 1973کے آئین کے مطابق کوئی بھی پارلیمان کا رکن اگر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے چناؤ، انکے خلاف عدم اعتماد، بجٹ کی منظوری یا اسے مسترد کرنے اور کسی آئینی ترمیم کی منظوری یا اسے مسترد کرنے کیلئے اپنی پارلیمانی پارٹی کی وھپ یعنی پارٹی کی ہدایت کے منافی اپنا ووٹ استعمال کرتا ہے تو ایسا کرنے کے بعد اسے رکنیت سے محروم ہونا پڑے گا۔ تاہم متعلقہ کارکن کی رکنیت ساقط کرنے کیلئے اسکی پارٹی اسے نوٹس جاری کرکے اسکا موقف سنے گا جسکی روشنی میں رکنیت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ تاہم چونکہ پی ٹی آئی کا وہپ ہی متنازع ہے اس لئے حکومت کے حق میں ووٹ ڈالنے کے باوجود پی ٹی آئی اراکین نااہلی سے محفوظ رہیں گے۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں آئین کے آرٹیکل 63 کے حوالے سے دائر کردہ نظر ثانی درخواست کا فیصلہ اس لیے بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا یے کہ اس وقت حکومت کو اپنا مجوزہ آئینی ترمیمی پیکج منظور کروانے کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر حکومت اپوزیشن جماعتوں اور آزاد اراکین میں سے کچھ لوگوں کو ترمیمی پیکج کے حق میں ووٹ دینے کے لیے راضی کر بھی لیتی ہے تو جسٹس عمر عطا بندیال کے 2022 کے فیصلے کے مطابق ایسے اراکین پارلیمنٹ نہ صرف نااہل ہو جائیں گے بلکہ ان کا ووٹ بھی شمار نہیں ہو گا۔ آئینی ماہرین کہتے ہیں کہ عمر عطا بندیال کا فیصلہ آئین کے خلاف تھا چونکہ اگر کسی رکن پارلیمنٹ کا ووٹ ہی شمار نہیں ہوتا تو پھر اس پر فلور کراسنگ کا قانون بھی نہیں لگ سکتا، یعنی اگر فلور کراسنگ کا جرم ہی سرزد نہیں ہوا تو پھر نااہلی کی سزا بھی نہیں دی جا سکتی۔
یاد رہے کہ یہ فیصلہ تب آیا تھا جب عمران خان وزیراعظم تھے اور حمزہ شہباز شریف پنجاب میں وزیراعلی بن گئے تھے۔ جب حمزہ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا گیا تو تحریک انصاف کے 19 اراکین پنجاب اسمبلی نے ان کے حق میں ووٹ ڈال دیا تھا۔ تاہم اس معاملے کو ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ میں لے جایا گیا جہاں عمر عطا بندیال نے توقع کے عین مطابق ایک عمراندار جج کا کردار ادا کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے حق میں پڑے پی ٹی ائی کے ووٹوں کو شمار کرنے سے روک دیا اور ان اراکین اسمبلی کو نااہل بھی قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے خلاف دائر کردہ نظر ثانی اپیل کو جسٹس عمر عطا بندیال نے کبھی سنا ہی نہیں۔ اب اس اپیل کو دائر یوئے دو برس سے زیادہ ہو چکے ہیں لہذا جسٹس قاضی فائز عیسی یہ اپیل سننے جا رہے ہیں۔ پہلے جسٹس منصور علی شاہ نے اس اپیل کو لگانے کی راہ میں روڑے اٹکائے اور پھر جسٹس منیب اختر نے بھی اہنا حصہ ڈالا، لیکن اب فائز عیسی نے نیا بینچ تشکیل دے کر ارٹیکل 63 کے کیس پر نظر ثانی اپیل کی سماعت شروع کر دی ہے اور امید ہے جلد اس حوالے سے فیصلہ بھی سامنے آ جائے گا۔ اگر اپیل منظور ہو جاتی ہے تو حکومت کی مجوزہ آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے والے پارلیمنٹیرینز پر فلور کراسنگ قانون تو اپلائی ہو گا لیکن ان کا ووٹ بھی شمار ہو جائے گا اور یوں حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ جو اراکین پارلیمنٹ حکومتی پیکج کے حق میں ووٹ ڈالنے پر نااہل قرار پائیں گے پہلے تو ان کی نااہلی ثابت کرنے میں وقت لگے گا تاہم اگر لامحالہ انھیں ڈی سیٹ کرنا بھی پڑا تو انہیں دوبارہ سے الیکشن لڑوا کر پارلیمنٹ کا حصہ بنا دیا جائے گا۔