آئینی ترمیم،حکومت کا کام چور ججز کو گھر بھجوانے کا فیصلہ
حکومت نے آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد عدلیہ میں جھاڑو پھیرنے اور کام چور ججز کی چھٹی کروانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عدالتی اصلاحات کے تحت نہ صرف لوئر جوڈیشری بلکہ اعلی عدلیہ کے ججز کی کارکردگی کی مسلسل مانیٹرنگ کی جائے گی بلکہ حکومت نے کارکردگی کے مطابق جزا اور سزا کا باقاعدہ نظام مرتب کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
40فیصدمقدمات آئینی عدالتوں کو منتقل ہوں گے
دوسری جانب مبصرین کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت جہاں 40 فیصد مقدمات آئینی عدالتوں کو منتقل ہونے کے بعد جہاں عوام تک تیز ترین انصاف کی فراہمی کی راہ کھل جائے گی وہیں دوسری جانب عدالتی اصلاحات کے اعلی عدلیہ کی کارکردگی کو جانچنے کے حوالے سے کئے جانے والے عملی اقدامات کی بدولت جہاں لامحالہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہو گا وہیں عوام کو بروقت انصاف کی فراہمی کی راہ بھی ہموار ہو گی۔
ترمیم میں عدالتی اصلاحات بھی متعارف کرائی ہیں
خیال رہے کہ پارلیمان کی طرف سے منظور کی گئی 26ویں آئینی ترامیم میں متعارف کروائی گئی دیگر عدالتی اصلاحات کے ساتھ ججوں کی کارکردگی کو جانچنے کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے۔
جوڈیشل کمیشن اب ججوں کی کارکردگی کو جانچے گا
آرٹیکل 175 اے میں کی گئی ترمیم کے مطابق اب جوڈیشل کمیشن سالانہ بنیادوں پر ہائی کورٹ ججوں کی کارکردگی جانچے گا اور اس کے لیے قوانین بھی بنا سکے گا۔
ججوں کی کارکردگی جانچنے سے فیصلے جلد ہوں گے
خیال رہے کہ اس ترمیم کے منظور ہونے سے پہلے بھی حکومتی اراکین اس کے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے عوام کے مقدمات کا فیصلہ جلد ہو گا اور عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں کمی آئے گی۔
تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن ججوں کی کارکردگی کیسے جانچے گا اور اس کا معیار کیا ہو گا؟
ترمیم کے کچھ پہلوججزکی کارکردگی کا تعین کرسکتے ہیں؟
اگرچہ ترمیم کے مطابق اس کے اصول و ضوابط بعد میں بنائے جا سکتے ہیں لیکن آئینی ماہرین کے خیال میں کچھ پہلو ججز کی کارکردگی کے معیار کا تعین کر سکتے ہیں۔
فیصلے دیکھ کر ججزکی کارکردگی کاجائزہ لیاجائے گا،ظفراللہ
سینیئر قانون دان بیرسٹر ظفراللہ کے خیال میں ایک جج کی ڈگریاں، اس کے مقدمات سننے کا انداز اور رویہ، تحقیقی مقالے اور مقدمات کے فیصلوں کی تعداد دیکھ کر اس کی کارکردگی کا درست فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
درست فیصلے سے کارکردگی کا اندازہ ہوگا،خالد رانجھا
سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد رانجھا کے مطابق سنے گئے مقدمات کی بجائے اگر یہ دیکھا جائے کہ ایک جج نے کتنے مقدمات میں درست فیصلہ کیا ہے تو اس سے کارکردگی کے معیار کا زیادہ بہتر اندازہ ہو گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر تو معیار جانچنے والوں کی سوچ کاروباری ہے تو وہ یہ دیکھیں گے کہ ایک جج کے سنے گئے مقدمات کی تعداد کیا ہے، لیکن اگر آپ انصاف کے معیار کی بنیاد پر کارکردگی جانچنا چاہتے ہیں تو پھر آپ یہ دیکھیں گے کہ ایک جج نے کتنے ایسے مقدمات سنے ہیں جن میں درست اور معیاری انصاف فراہم کیا گیا ہے اور کتنے مقدمات کے فیصلوں پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ جج کی کارکردگی کا معیار فراہم کیے گئے انصاف سے ہوتا ہے نہ کہ سنے گئے مقدمات کی تعداد سے۔‘
عوام کو ترمیم کا فائدہ نہیں پہنچے گا،بیرسٹرظفراللہ
تاہم بیرسٹر ظفراللہ کے خیال میں اس ترمیم کا عوام کو بلاواسطہ فائدہ پہنچنے کا امکان کم ہے کیونکہ اس کے مطابق ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا نہ کہ ماتحت عدلیہ کا جو کہ عام لوگوں کے روز مرہ مقدمات سنتی ہے۔ان کے مطابق ’اس سے عوام کو یہ تو فائدہ ہو سکتا ہے کہ ان کے جو مقدمات ہائی کورٹ میں آئیں وہ جلدی سنے جائیں اور زیر التوا مقدمات کی تعداد کم ہو سکے لیکن فوری طور پر ماتحت عدلیہ پر اس کے اثرات مرتب ہونے کا امکان نہیں ہے۔‘انہوں نے کہا کہ حکومت کو ماتحت عدلیہ میں مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے مصالحتی کمیٹیوں کے نظام کو فروغ دینا چاہیے۔
ججوں کی کارکردگی جانچنے کا فیصلہ درست ہے،ماہرین
’مجموعی طور پر ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا فیصلہ درست ہے اور اس سے اعلٰی عدلیہ میں مقدمات کے فیصلے جلد ہوں گے۔ پوری دنیا کے نظام انصاف میں یہ قانونی نقطہ ہوتا ہے اور یہ اچھا اقدام ہے۔ لیکن عام آدمی کے فائدے کے لیے ماتحت عدلیہ میں بھی اس طرح کی اصلاحات لانی چاہییں۔‘
لیکن ڈاکٹر خالد رانجھا کے مطابق اس قانون سے ہائی کورٹ اور اس میں چلنے والے اشرافیہ کے مقدمات پر اثرات تو مرتب ہوں گے لیکن عام آدمی کو اس سے فائدہ نہیں ہو گا۔
عدالتوں نے آئینی درخواستوں پرسماعت روک دی
دوسری جانب 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد عدالتوں نے آئینی درخواستوں کی سماعت روک دی۔ ملک بھر کی عدالتوں کےزیرسماعت 40فیصد درخواستیں آئندہ ماہ آئینی بنچوں کو ٹرانسفر کرنے کا عمل شروع کردیا جائے گا ۔اب سپریم کورٹ اور پانچوں ہائی کورٹس کی آئینی درخواستوں، رٹ پٹیشنز کے فیصلے آئینی بنچ کریں گے ۔ آئینی ترمیم کے بعد 20لاکھ سے زائد کیسوں کے سائلین کو کم وقت میں انصاف کی فراہمی ممکن ہوگی۔
زیرالتومقدمات کی تعداد20لاکھ سے زائد ہے
ذرائع کے مطابق ڈسٹرکٹ کورٹس، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے اور اس آئینی ترمیم کی منظوری نے عوام کو یہ امید بندھا دی ہے کہ اب مقدمات کے فیصلوں میں تیزی آئے گی۔
مبصرین کے مطابق اس کی دو وجوہات ہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ آئینی ترامیم کے تحت ڈسٹرکٹ عدالتوں، ہائی کورٹس او3 سپریم کورٹ میں موجود کم وبیش 40فیصد مقدمات آئندہ ہفتے تشکیل پانے والے آئینی بنچوں میں منتقل ہو جائیں گے اور دوسری وجہ یہ ہے ہائی کورٹس کے ججوں کی کارکردگی کا جوڈیشل کمیشن وقتاً فوقتاً جائزہ لیا کرے گا۔ جس سے ججز کی کارکردگی میں لازمی اضافہ ہو گا۔جس سے جہاں مقدمات کی سماعت میں تیزی آئے گی اور عوام کو جلد انصاف کی فراہمی یقینی ہو سکے گی۔