کیا ملالہ سیلیبرٹی بننے کے بعد پاکستانیوں کے لیے اجنبی ہو گئیں؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ امن کا نوبل پرائز جیتنے کے بعد لندن میں سیٹل ہو جانے والی ملالہ یوسف زئی پاکستانیوں کے لیے اجنبی ہو چکی ہیں۔ انہوں نے یہ اندازہ حال ہی میں اسلام اباد میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ملالہ یوسف زئی کی شرکت سے لگایا۔

اپنی تازہ تحریر میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبر سن کر بہت دْکھ ہوا کہ ملالہ یوسف زئی اتوار کے روز اسلام آباد میں ایک کانفرنس سے خطاب کے بعد پیر کو علی الصبح واپس لندن لوٹ گئیں۔ وادی سوات سے ابھرنے والی ملالہ یوسف زئی بین الاقوامی سیلبرٹی بن چکی ہیں۔ دنیا بھر میں بچیوں کو تعلیم کی ترغیب دینے اور علم کے حصول کو ممکن بنانے کے لئے انہیں دنیا بھر کے کئی مخیر اداروں نے گرانقدر رقم فراہم کر رکھی ہے۔ سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ ملالہ خود پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کا بہترین انتقام پاکستان میں مزید چھ روز گزار کر بچیوں کی تعلیم یقینی بنانے کے لئے چند شہروں میں جدید ترین تعلیمی اداروں کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے لے سکتی تھیں۔ لیکن افسوس کہ ملالہ سلیبرٹی بننے کے بعد پاکستان کے لئے اجنبی ہوگئی ہیں۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ 9 اکتوبر 2012ء کا دن میرے دل پر زخم کی طرح نقش ہے۔ سوات کی بیٹی ملالہ یوسف زئی اس روز سکول کی وین میں بیٹھی ہوئی تھی۔ دہشت گردوں نے اس کی جان لینے کی کوشش کی۔ ان کا حملہ ناکام ہوا مگر ملالہ کو صحت یاب ہونے میں بہت دیر لگی۔ خوف سے گھبرائی پاکستانی حکومت اسے ملک میں رکھنا برداشت نہ کرپائی۔ اسے برطانیہ منتقل کرنا پڑا۔ صحت یابی کے بعد اسی ملک سے ملالہ نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی۔

ملالہ سے کسی بھی نوعیت کا رشتہ نہ ہونے کے باوجود میں اس پر ہوئے حملے کی وجہ سے بہت دنوں تک دہشت زدہ محسوس کرتا رہا۔ تقریباََ ہذیانی کیفیت میں ٹی وی سکرین پر بیٹھا اس پر ہوئے حملے کے ذکر میں مصروف رہا۔

میں نے سوات میں دہشت گردی کے آغاز اور انجام کو برسر زمین جاکر کئی بار بہت قریب سے دیکھا تھا۔ وہاں ایک بڑے فوجی آپریشن سے قبل جو نقل مکانی ہوئی مجھے مہاجرین کے وہ قافلے یاد دلاتی جن کا ذکر قیام پاکستان کے ابتدائی ایام کی بابت لکھی کتابوں میں پڑھا تھا۔ سوات سے دربدر ہوکر مردان پہنچے قافلوں کی اذیت ورسوائی مرتے دم تک بھلا نہیں سکتا۔ بالآخر فوجی آپریشن کے اختتام کے بعد سوات میں ’’بحالی امن‘‘ کی بڑھکیں لگائی گئیں۔ میں اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگرامز میں تواتر سے یہ سوال اٹھاتا رہا کہ ’’بحالی امن‘‘ کا دعویٰ ملالہ پر ہوئے حملے کے تناظر میں کھوکھلی بڑھک ہی سنائی دیتا ہے۔ کئی بار یہ سوال ریاست کے اہم ترین عہدے داروں کے روبرو آف دی ریکارڈ ملاقاتوں میں بھی اٹھایا۔ تسلی بخش جوابات نہ ملتے تو تلخ نوائی کو مجبور ہوجاتا۔

نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ میرے دْکھ میں مزید اضافہ ان خواتین کے ساتھ گفتگو کے دوران ہو جاتا جو اسلام آباد کے خوش حال گھرانوں کی نمائندہ تھیں۔ مگر آبائی تعلق ان کا سوات سے تھا۔ ان پڑھی لکھی اور ’’لبرل‘‘ نظرآتی خواتین کی اکثریت ملالہ کے بارے میں میری فکرمندی کا تمسخر اڑاتیں۔ یہ خواتین ہمیشہ اصرار کرتیں کہ ملالہ پر ہوا حملہ سی آئی اے جیسے اداروں کی جانب سے رچایا ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھا۔ مقصد اس کا پاکستان اور خاص طورپر حسین وادی سوات کو ’’بدنام‘‘ کرنا تھا۔ ان کا دعویٰ رہا کہ جن دنوں سوات ایک خودمختار ریاست تھی تو وہاں کے والی بہت ’’روشن خیال‘‘ تھے۔ وہ تعلیم کے فروغ کے زبردست حامی بھی تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے سوات امن وسلامتی کا گہوارہ رہا۔ پاکستان میں شامل ہونے کے بعد ہی سوات ’’ایجنسیوں‘‘ کی کارگزاری اور افغانستان کے حالات کی وجہ سے دہشت گردی کی علامت بنا۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ پنجاب سے تعلق رکھنے کی وجہ سے میں ان کے دلوں میں موجود شکوک وشبہات کو ٹھوس شواہد کیساتھ رد کرنے کے قابل نہیں تھا۔ چناچہ میں زچ ہوکر محض یہ فریاد کرنے کو مجبور ہوجاتا کہ خدارا اس حقیقت کا تو اعتراف کرلیا جائے کہ ملالہ پر حملہ کرنے والے مشہور دہشت گرد تھے اور اس کی جان بچانے کے لئے برطانیہ کے ڈاکٹروں کو کئی دنوں تک محنت کرنا پڑی ہے۔ مجھ سے بحث کرنے والی خواتین مگر ملالہ پر نازل ہوئی مصیبتوں کا ذمہ دار اس کے والد کو ٹھہراتیں۔ الزام لگاتیں کہ ملالہ کے والد کو ’’مشہور‘‘ ہونے کی ’’بیماری‘‘ ہے۔ وہ اپنی بیٹی کے نام سے ’’بلاگ‘‘ وغیرہ لکھتے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردوں کو اشتعال دلایا۔ ملالہ پر حملہ یقینا پریشان کن تھا۔ لیخن اس کے نتیجے میں وہ سوات سے اپنے والد کے ہمراہ برطانیہ میں پناہ گزین ہوگئی ہے۔ اسے ایک مشہور یونیورسٹی سے مفت کی اعلیٰ تعلیم بھی مل گئی۔ اب پوری دنیا میں جانی جاتی ہے۔ بالآخر اسے نوبل انعام بھی مل گیا جس نے اسے بین الاقوامی طورپر جانی پہچانی سیلبرٹی بنادیا ہے۔ لیکن میں پھر بھی یہ سوچتے ہوئے خاموش ہوجاتا کہ اسلام آباد کے خوش حال گھرانوں کی نمائندہ خواتین غالباََ ملالہ کی بین الاقوامی شہرت سے ’’طبقاتی وجوہات‘‘ پر ’’حسد‘‘ میں مبتلا ہیں۔ اسی باعث غیبت گوئی میں ملوث ہوجاتی ہیں۔

سینیئر صحافی لکھتے ہیں کہ لیکن اکتوبر 2012ء سے کئی مہینوں تک ملالہ کی وجہ سے پریشان رہنے والا نصرت جاوید آج خود ملالہ یوسف زئی کی غیبت کو مجبور ہورہا ہے۔ گزرے ہفتے ایک دوست کے ہاں کھانے کی دعوت تھی۔ وہاں یہ خبر سن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ مسلمان آبادیوں میں خواتین کی تعلیم کو فروغ دینے کی ترغیب کا اہتمام کرنے اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہورہی ہے۔ ملالہ یوسف زئی بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد آئیں۔

ملالہ کے پاکستان آنے کی خبر سن کر میرا جی بہت خوش ہوا۔ مجھ سادہ لوح نے فرض کرلیا کہ اس کانفرنس سے خطاب کے بعد سوات سے جان بہ بلب ہوکر نکلی ملالہ یوسف زئی اپنی جنم بھومی بھی جائیں گی۔ اس سکول میں منعقدہ ایک بھرپور تقریب سے خطاب کریں گی جہاں سے تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے ان پر جان لیوا حملہ ہوا تھا۔ اس تقریب میں سوات بھر سے سکولوں کی بچیوں کو بلایا جاسکتا تھا۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ اپنی خواہش پوری نہ ہونے کی وجہ البتہ کسی حد تک سمجھ سکتا ہوں۔ بدقسمتی سے ہمارے خیبرپختونخواہ میں دہشت گردی ایک بار پھر وحشت انگیز انداز میں سراٹھارہی ہے۔ ایسے میں ملالہ اگر سوات چلی جاتیں اور وہاں بچیوں کو حوصلہ دینے کے لئے کسی تقریب سے خطاب کرتیں تو اسے خودکش حملوں سے نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ لیکن اسلام آباد کے کنونشن سنٹر ہی کو سکیورٹی کے حوالے سے مزید فول پروف بنانے کے بعد اس شہر کے سکولوں کی بچیوں کو وہاں جمع کیا جاسکتا تھا۔ وہاں ملالہ اپنی ’’خطاؤں‘‘ کا ذکر کرتیں جنہوں نے طالبان کو ان پر جان لیوا حملے کو اْکسایا۔ اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد وہ بچیوں کے دلوں میں اْبلتے بے ساختہ سوالات بھی بڑی بہن کی طرح کشادہ دلی سے سنتے ہوئے حوصلہ افزا وجوہات فراہم کرسکتی تھیں۔ جو اجتماع میرے ذہن میں آرہا ہے اس کا اہتمام پی ٹی وی کے ذریعے ہوسکتا تھا جو اس پروگرام کو ریکارڈ کرتا۔ اگر براہ راست دکھا نہ سکتا تو اس کی ریکارڈنگ کئی بار چلاکر بچیوں میں تعلیم سے رغبت کو اجاگر کیا جاسکتا تھا۔ لیکن افسوس کہ ملالہ سلیبرٹی بننے کے بعد پاکستان کے لیے اجنبی ہو چکی ہیں لہذا وہ یہاں 24 گھنٹے گزارنے کے بعد دوبارہ لندن روانہ ہو گئیں۔

Back to top button