جنرل فیض حمید کو ایک سے زائد الزامات پر سزائے موت کا سامنا

ٹاپ سٹی اسکینڈل میں کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف کئی اور سنگین الزامات پر بھی کورٹ مارشل کی کارروائیوں کا آغاز ہو چکا ہے جن میں انکوائریاں مکمل ہونے کے بعد انہیں آئیندہ چند ہفتوں میں سخت ترین سزائیں، بشمول عمر قید یا سزائے موت سنائے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

راولپنڈی میں انتہائی باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی ایک نہیں بلکہ کئی کاروائیاں بیک وقت جاری ہیں۔ انہیں گرفتار تو ٹاپ سٹی اسکینڈل میں کیا گیا تھا لیکن دوران تفتیش کئی ایسے سنگین کیسز بھی سامنے آئے جن کی بنیاد پر ان کے خلاف مزید مقدمات بھی بنا دیے گئے۔ ان کو 9 مئی 2023 کو فوجی بغاوت کا ماسٹر مائنڈ ہونے کے الزام کا بھی سامنا ہے جب ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملے کیے گے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سازش کے الزام میں 200 سے زائد فوجی افسران کے خلاف کاروائیاں پہلے ہی کی جا چکی ہیں۔

باخبر ذرائع کے مطابق فیض حمید پر تقریبا تمام کیسز میں فرد جرم عائد ہونے کے بعد انکوائریاں جاری ہیں اور اب معاملات آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں جس کے بعد اگلے چند ہفتوں میں انہیں سخت ترین سزائیں سنائے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فیض حمید پر نئے الزامات میں بغاوت کی سازش کے علاوہ ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کے مفادات کے خلاف سازش کا الزام بھی شامل ہے۔

یاد رہے کہ فیض حمید کو آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی پر 12 اگست 2024 کو کورٹ مارشل کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کا اغاز کیا گیا تھا۔ معیز نے الزام لگایا تھا کہ فیض کے ایما پر 12 مئی 2017 کو رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ٹاپ سٹی کے دفتر اور ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ فیض حمید کے بھائی سردار نجف حمید پٹواری نے ٹاپ سٹی ہاؤزنگ سوسائٹی کی زمین اپنے نام کروانے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا فیض کے ایما پر آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے معیز کو زبردستی 4 کروڑ روپے نقد ادا کرنے پر بھی مجبور کیا۔ یاد رہے کہ تب فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔

قاضی پر حملہ کرنے والے یوتھیوں کو گرفتار کر کے پاکستان لانے کا فیصلہ

باخبر عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسر کو 35 اقسام کے جرائم پر سزا ہو سکتی ہے۔ ان میں ملک دشمنوں سے تعلق، جس ملک میں تعینات ہوں وہاں کے رہائشیوں یا جائیداد کے خلاف سرگرمیاں، کسی کے گھر پر لوٹ مار کی غرض سے چھاپہ، اور دیگر کئی جرائم شامل ہیں۔ کورٹ مارشل میں سزاؤں سے متعلق پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 60 میں تفصیلات درج ہیں۔ آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 60 کے مطابق جرائم کے مرتکب افراد کو کورٹ مارشل کے ذریعے مختلف سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ کورٹ مارشل کے ذریعے سنگساری، سزائے موت، ہاتھ پاؤں کاٹنے اور عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ایکٹ کے مطابق قید کی سزا 25 سال اور زیادہ سے زیادہ ایک سو کوڑے اور کورٹ مارشل کے ذریعے نوکری سے نکالنے کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ تمام الاؤنسز ضبط کیے جا سکتے ہیں۔

عسکری ذرائع کے مطابق کسی بھی فوجی افسر کو کورٹ مارشل سے سزا ہونے کے بعد وفاقی حکومت یا آرمی چیف یا بریگیڈیئر رینک کا آفسر آرمی چیف کی اجازت سے مشروط یا غیر مشروط، پوری یا کچھ سزا معاف کر سکتا ہے مگر کوئی سزا جو حدود کے تحت دی گئی ہو، وہ نہ معاف ہو گی نہ ہی کم کی جا سکتی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ جنرل فیض حمید کو سنائی جانے والی متوقع سزا میں کسی قسم کی رعایت اس لیے نہیں مل سکتی کہ انہوں نے موجودہ فوجی قیادت کے خلاف سازش کی تھی۔

Back to top button